جبر و اختیار
فرماتے ہیں کہ اختیار کا عقیدہ انسان کی فطرت میں داخل ہے۔ اور وہ روز مرہ کی زندگی میں اس عقیدہ کا اقرار اور جبر کا انکار کرتا رہتا ہے۔ کسی پر چھت کی لکڑی گر جاتی ہے تو اس کو چھت پر غصہ نہیں آتا۔ سیلاب سامان بہا لے جاتا ہے تو کسی کو اس پر غصہ اتارتے نہیں دیکھا گیا۔ ہوا کسی کی پگڑی اڑا لے جاتی ہے تو کوئی ہوا سے نہیں لڑتا۔ سب جانتے ہیں کہ یہ مجبور و بے قصور ہیں، البتہ انسان کے ساتھ انسان کا یہ معاملہ نہیں۔ گویا صرف وہی صاحبِ اختیار ہے۔
وہ ایک قدم آگے بڑھا کر فرماتے ہیں کہ جانور تک جبر و قدر کے مسئلہ سے فطری طور پر واقف ہیں، اور سمجھتے ہیں کہ آلات و جمادات کا کچھ قصور نہیں۔ کتے کو بھی اگر پتھر مارا جائے تو وہ پتھر پر نہیں لپکتا بلکہ انسان کے پیچھے دوڑتا ہے۔ شتربان اونٹ کو مارتا ہے تو اونٹ کو لکڑی پر غصہ نہیں آتا، شتر بان سے انتقام لینا چاہتا ہے۔ جب حیوان تک اس حقیقت سے واقف ہیں تو انسان کو جبری بننے سے شرم آنی چاہیے۔
کتاب / جریدہ:
تاریخ دعوت و عزیمت (حصہ اول)
صفحہ:
392
قلم نگار:
سید ابوالحسن علی ندوی
No comments:
Post a Comment