Friday, 18 September 2015

عمدہ اشعار

[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari: ***** غزل *****
تو کبھی خود کو خود سے نہ برتر بنا
پیکرِ عجز بن    خود کمتر بنا

جو دلوں میں اتر جائیں، اور پر اثر
یا الہی میرے    لفظوں کو گوہر بنا

اک بجلی گری، جل گیا آشیاں
سن! پرندوں کی تمثیل، پھر گھر بنا

دیکھ کر  شاملِ دیں ہونے لگے
خود کو اخلاق کا عمدہ پیکر بنا

کامراں تم بھی اسجد رہو گے ضرور
دیں کے خاطر کٹے اپنا یوں سر بنا

( اسجد رشادی)

[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari

: حقیقت سامنے آکر کہانی چھین لیتی ہے

خطا انسان کی انکھوں کا پانی چھین لیتی ہے

بری صحبت سے بچنے کی ہمیشہ فکر کر پیارے

یہ اکثر نوجوانوں سے جوانی چھین لیتی ہے

[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari:

مصیبت نام ہے اہل وفا کی آز ماُش کا......

اسی میں آدمی کے حوصلے معلوم ہوتے ہیں.
.......
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari

: وہ کہہ کے چلے اتنی ملاقات بہت ہے
میں نے کہا رک جاؤ ابھی رات بہت ہے

آنسو میرے تھم جائیں تو پھر شوق سے جانا
ایسے میں کہاں جاؤگے برسات بہت ہے

[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari

: مذہبی بحث میں نے کی ہی نہیں
فالتو عقل مجھ میں تھی ہی نہیں
(اکبر الٰہ آبادی)
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari: نعت

ساری مخلوق پہ مہرباں آپ ہیں
علم و عرفان کے آسماں آپ ہیں

نور ہی نور ہے آپ کا راستہ
سر توحید کے رازداں آپ ہیں

آپ کے نام سے دل کی ہے زندگی
مزدہ خلد، جنت نشاں آپ ہیں

جڑ کٹے دشمنوں کا نشاں بھی نہیں
ہر زماں ہر مکاں جاوداں آپ ہیں

قتل و غارت،بد امنی سے کیا واسطہ
دشمنون پہ بھی رحمت فشاں آپ ہیں

حوصلہ مل رہا ہے مری فکر کو
عزم وہمت کے کوہ گراں آپ ہیں

ہیں فدا آپ پر آپ کے  امتی
سب کے محبوب تسکین جاں آپ ہیں

[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari:

وہ خود نمائی پہ کتنا یقین رکھتا ہے
نہیں ہے ہاتھ مگر آستین رکھتا ہے

[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansar

: ناکامیوں کی بعدبھی ہمت وہی رہی
اوپر کا دودھ پی کے بھی طاقت وہی رہی

شائد یہ نیکیاں ہیں ہماری کہ ہر جگہ

دستار کے بغیر بھی عزت وہی رہی

میں سر جھکا کے شہر میں چلنے لگا مگر

میرے مخالفین میں دہشت وہی رہی

جو کچھ ملا تھا مال غنیمت میں لٹ گیا

محنت سے جو کمائی تھی دولت وہی رہی

قدموں میں لا کے ڈال دیں سب نعمتیں مگر

سوتیلی ماں کو بچوں سے نفرت وہی رہی

کھانے کی چیزیں ماں نے جو بھیجی ہیں گاؤں سے

باسی بھی ہو گئی ہیں تو لذت وہی رہی

منور رانا
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari:

شرک چھوڑا تو سب نے چھوڑ دیا
میری کوئی سوسائٹی ہی نہیں
پوچھا، اکبرؔ ہے آدمی کیسا؟
ہنس کے بولے وہ آدمی ہی نہیں
(اکبر الٰہ آبادی)
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari

: پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں
اس عاشقی میں عزتِ سادات بھی گئی
(میر تقی میرؔ)
[01
:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari:

مرشدجی مریدوں

کواب اس بار کھاں سے دیں جوتے

اس عرس میں چادرکےآگےجوتوں کاچرانابھول گئے۔

سرپہ پڑےاتنےجوتےکہ ھوش کاتاوٹھکانےلگا۔
کل رات جب اپنی پتنی کےھم پیردبانابھول گئے۔

شاعرکی غزل سچ مچ دادااچھےانعام کےقابل ھے۔
افسوس کہ ھم سب گھر ہی پرجوتوں کاخزانہ بھول گئے
"نامعلوم "[

فلک دیتا ہے جنکو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں،
جہاں بجتی ہے شہنائی وہاں ماتم بھی ہوتے ہیں

مدّت سے تو دلوں کی ملاقات بھی گئی
ظاہر کا پاس تھا سو مدارات بھی گئی
کتنے دنوں میں آئی تھی اس کی شبِ وصال
باہم رہی لڑائی سو وہ رات بھی گئ

: کل نشہ میں تھا وہ بُت مسجد میں گر آجاتا
ایماں سے کہو یارو! پھر کس سے رہا جاتا
مردے کو جلا لیتے، گرتے کو اُٹھا لیتے
اک دم کو جو یاں آتے تو آپ کا کیا جاتا


ساقیا عید ہے، لا بادے سے مینا بھر کے
کہ مے آشام پیاسے ہیں مہینا بھر کے
آشناؤں سے اگر ایسے ہی بے زار ہو تُم
تو ڈبو دو انہیں دریا میں سفینا بھر کے
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari:

جگر صاحب

جگر مرادآبادی مستی کے عالم میں کئی کئی مہینوں گھر سے باہر رہتے تھے۔ ایک دن جو بے قراری بڑھی تو اُن کے قدم ایک طوائف کے گھر پہنچ گئے۔اُس کا نام روشن فاطمہ تھا۔ حسین، شوخ، چنچل، کمسن۔
“حضور کی تعریف؟ ” اُس نے پوچھا۔
جگر آنکھیں جُکھائے اُس کے سامنے کھڑ ے تھے۔ شاید نگاہ بھر کے اُسے دیکھا تک نہیں تھا۔ جواب میں دو شعر پڑھ دیے۔
سراپا آرزو ہوں، درد ہوں، داغِ تمنا ہوں
مجھے دنیا سے کیا مطلب کہ میں آپ اپنی دنیا ہوں
کبھی کیفِ مجسم ہوں، کبھی شوقِ سراپا ہوں
خدا جانے کس کا درد ہوں، کس کی تمنا ہوں
“سبحان اللہ ” طوائف کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ بے چار ے عاشق معلوم ہوتے ہیں۔
جگر نے پھر ایک شعر پڑھ دیا۔
ُ
مجھی میں عشق کا عالم، مجھی میں عشق کی دنیا
نثار اپنے پہ ہو جاؤں اگر سو بار پیدا ہوں
“حضور اس غریب خانے کو کیسے رونق بخشی؟ “
کچھ ہمی جانتے ہیں لطف تر ے کوچے کا
ورنہ پھرنے کو تو مخلوقِ خدا پھرتی ہے
اس شعر کا سُننا تھا کہ روشن فاطمہ پھڑک گئی، طوائف تھی، چہرہ شناس تھی، سُخن فہم تھی۔ بار بار اس شعر کو پڑھتی تھی اور داد دیتی تھی۔
“میں اب تک کیوں آپ سے محروم رہی؟ کیا آپ اس شہر کے نہیں ہیں؟ ہیں تو یہاں کب سے ہیں؟ اور اب تک یہاں کیوں نہیں آئے؟ “
جگر یہ کہتے ہوئے اُس کے سامنے بیٹھ گئے۔
نہ پوچھ دہر میں کب سے میں اس طرح خانہ خراب ہوں
جو نہ مٹ سکا وہ طلسم ہوں، جو نہ اُٹھ سکا وہ حجاب ہوں
” دیکھئے میں پاگل ہوجاؤں گی۔ اللہ کے واسطے آپ اپنا نام تو بتائیے آپ ہیں کون ؟ “
دیکھا تھا کل جگر کو سرِ راہِ میکدہ
اس درجہ پی گیا تھا کہ نشے میں چُور تھا
وہ پھر بھی نہیں سمجھی۔ شاید اُس نے جگر کا نام سُنا ہی نہیں تھا یا پھر وہ یہ سمجھی کہ وہ یہاں کہاں آئیں گے، کوئی اور جگر ہوگا۔
اسی وقت ایک مہمان اور آ گیا۔ یہ جگر کا واقف کار تھا۔ دن کا وقت تھا اس لیے محفل گرم نہیں ہوئی تھی۔ ” جگر صاحب مجھے کسی نے بتایا کہ آپ یہاں آئے ہیں۔” پھر وہ شخص روشن فاطمہ سے مخاطب ہوا۔
” آپ واقف ہیں ان سے؟ مشہور شاعر جگر مرادابادی ہیں۔ “
“آؤ بھئی چلیں میں نے بہت زحمت دے لی انہیں” جگر نے کہا۔
“ایسے تو نہیں جانے دوں گی۔” روشن فاطمہ نے جگر کا ہاتھ تھام لیا۔ ” یہ طوائف کا کوٹھا ہے یہاں وہ آتا ہے جس کی جیب میں مال ہوتا ہے۔ “
جگر نے شیروانی کی جیب میں ہاتھ ڈالا اور جتنے نوٹ ہاتھ میں آئے اُس کے سامنے رکھ دیے۔
” نہیں حضور قیمت تو گاہک کی حیثیت دیکھ کر طے ہوتی ہے۔ ایسے نوٹ تو مجھے کوئی بھی جاہل سیٹھ د ے سکتا ہے۔ آپ تو مجھے غزل سُنائیں۔”
” شعر سمجھتی ہو؟ “
“حضور پہلے سمجھتی ہوں پھر گاتی ہوں۔ “
ابھی روشن کا جملہ ختم نہیں ہوا تھا کہ جگر کی پُرسوز آواز نے دن کو قیامت کا دن بنا دیا۔
کیا چیز تھی کیا چیز تھی ظالم کی نظر بھی
اُف کر کے وہیں بیٹھ گیا درد جگر بھی
کیا دیکھیں گے ہم جلوہِ محبوب کہ ہم سے
دیکھی نہ گئی دیکھنے والے کی نظر بھی
واعظ نہ ڈرا مجھ کو قیامت کی سحر سے
دیکھی ہے ان آنکھوں نے قیامت کی سحر بھی
اُس دل کے تصدق جو محبت سے بھرا ہو
اُس درد کے صدقے جو ادھر بھی ہو اُدھر بھی
ہے فیصلہِ عشق جو منظور تو اُٹھئیے
اغیار بھی موجود ہیں حاضر ہے جگر بھی..
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari: توبہ کروں گا میں شراب و کباب سے،
قرآن میں جو آیا ہے كلوا و اشربوا نہ ہو.
                  جواب                     
تسلیم قول آپ کا جب ہم کریں جناب،
کلوا و اشربوا کے آگے فلا تسرفوا نہ ہو. ..
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari: ادم سے پھرتے پھرتے گور تک پہنچا ہوں مشکل سے
مسافر ہوں کہاں جانا ہے ناواقف ہوں منزل سے
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari: یہ زندگی سوال تھی جواب مانگنے لگے
فرشتے خواب میں آکر حساب مانگنے لگے

دکھائی جانے کیا دیا ہے جگنوؤں کو خواب میں
کھلی ہے جب سے آنکھ آفتاب مانگنے لگے

تجارتوں کارنگ بھی عبادتوں میں آگیا
سلام پھیرتے ہی ہم ثواب مانگنے لگے
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari: کبھی رُک گئے کبھی چل د یئے ، کبھی چلتے چلتے بھٹک گئے ۔
یونہی عُمر ساری گزار دی، یوُنہی زندگی کے ستم سہے ۔
کبھی نیند میں کبھی ہوش میں، تُو جہاں ملا تجھے دیکھ کر ۔
نہ نظر ملی نہ زبان ہلی، یونہی سر جُھکا کے گزر گئے ۔
کبھی زُلف پر کبھی چشم پر، کبھی تیرے حسین وجود پر ۔
جو پسند تھے میری کتاب میں، وہ شعر سارے بکھر گئے
مجھے یاد ہے کبھی ایک تھے، مگر آج ھم ہیں جُدا جُدا ۔
وہ جُدا ھوئے تو سنور گئے، ھم جُدا ہوئے تو بکھرگئے ۔
کبھی عرش پر کبھی فرش پر، کبھی اُن کے در کبھی دربدر ۔
غمِ عاشقی تیرا شکریہ، ہم کہاں کہاں سے گزر گئے ۔
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari:

غالب نے ایک بار بستر پر پیشاب کردیا
بیوی نے پوچھا یہ کیا ہے
تو جواب دیا.
ناکامئ عشق کا ایسا اثر ہوا غالب.
آنسو نکل رہے ہیں رستے بدل بدل کے.

[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari:

قاتل کے حق میں فیصلہ منصف نے کردیا،
ہم چیختے ہی رہ گئے انصاف کے لئے.
                  ..............
وہ قتل بھی کرتے ہیں چرچا نہیں ہوتا،
ہم آہ بھی کرتے ہیں تو ہو جاتے ہیں بدنام.
....
[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari

: یہ دنیا کچھ ایسی ہے ، ہر راز چھپانا پڑتا ہے !
دل میں چاہے جتنا غم ہو محفل میں مسکرانا پڑتا ہے !

[01:04, 19/09/2015] Shamimansari Ansari:

دی اذانیں کبهی یورپ کے کلیساؤں میں
کبهی افریقہ کے تپتے ہوئے صحراؤں میں
شان آنکھوں میں نہ جچتی تهی جہاں تاروں کی
کلمہ پڑھتے تھے چهاوں میں تلواروں کی
تجهسے سرکش ہو اب کوئی بگڑ جاتے تھے
تیغ کیا چیز ہے ہم توپ سے لڑ جاتے تھے
نقش توحید کا ہر  دل پہ بٹهایا ہم نے
زیر خنجر بھی یہ پیغام سنایا ہم نے

No comments:

Post a Comment