Tuesday, 15 September 2015

سلطان ٹیپو کی وصیت ناقل کلیم الدین خان

��سلطان ٹیپو کی وصیت ��

تو رہ نورد شوق ہے منزل نہ کر قبول
لیلی بھی ہم نشیں ہو تو محمل نہ کر قبول ��

اے جوئے آب، بڑھ کے ہو دریا سے تندو تیز
ساحل تجھے عطا ہو، تو ساحل نہ کر قبول ��

کھویا نہ جا صنم کدہ کائنات میں
محفل گزار گرمئ محفل نہ کر قبول ��

صبح ازل یہ مجھ سے کہا جبرائیل نے
جو عقل کا غلام ہو وہ دل نہ کر قبول ��

باطل دوئی پسند ہے حق لاشریک ہے
شرکت میانہ حق و باطل نہ کر قبول ����

��مطلب ��ٹیپو سلطان چونکہ خود شیر کی طرح بہادر تھا. اس نے انگریز کی غلامی کے مقابلے میں شہادت کو ترجیح دی تھی اس لئے وہ مسلمان کو بھی بہادری کا پیغام دیتے ہوئے کہتا ہے کہ تو عشق کے راستے کا مسافر ہے. مسافر ٹھہرا نہیں کرتے. اگر لیلی جیسا معشوق بھی دعوت دے کہ اس کے کجاوے میں آکر تسکین پالے تو اس کو قبول نہ کر. تیرا کام ہے چلتے رہنا. منزل پہ منزل مارنا. کیسے ہی ناموافق حالات ہوں ان سے ٹکر لے کر آگے بڑھتے رہنا اور کیسی ہی دل خوش کن منزل ہو وہاں قیام نہ کر نا اور ہردم نئی منزل کی تلاش میں رہنا...

��مطلب ��2.. اگر تو تنگ اور بے طوفان ندی کی مانند ہے تو ہمت نہ ہار. بڑھ کر ایک ایسا دریا بن جا جس میں تیز اور بلند طوفان اٹھتے ہیں. اگر تجھے ساحل بھی میسر آجائے تو اس کو بھی قبول نہ کر اور ساحل کو توڑتا ہوا نکل جا. مراد یہ ہے کہ کہ اے مسلمان اگر تو کمزور ہے تو کوئی بات نہیں. شوق اور عشق کے زور سے اپنی طلب میں طاقت پیدا کر اور اعلی مقاصد کو حاصل کر

��مطلب ��3..تو اس جہان کے بت کدے میں گم ہو کر نہ رہ جا. تو تو توحید کا علمبردار ہے اس بتکدے کو توڑ دے. تو تو خود محفل کو گداز کر دینے والا اسے پگھلا دینے والا ہے تو محفل کی گرمی یا رونق کا فریب کھاکر آرام طلب نہ ہو جا..

��مطلب ��4..جب کائنات پیدا کی گئی اور حضرت آدم علیہ السلام کو وجود عطا کیا گیا تو اللہ نے یہ بات آدم کی گھٹی میں رکھ دی جو مجھ تک جبرائیل علیہ السلام کے واسطے سے پہونچی ہے کہ دیکھنا ایسا دل پیدا نہ کر نا جو عقل کا غلام ہو جو عقل کے پیچھے چلنے والا ہو کیونکہ بہت سے مرحلے زندگی میں ایسے آتے ہیں جہاں عقل کے پیچھے چلنا خوار ہو نا اور عشق کی پیروی کرنا باعتبار اور معزز ہونا ہوتا ہے..

��مطلب ��5..باطل اور کفر ایک خدا کے بجائے زیادہ خداؤں (بتوں) کو پسند کرتا ہے جب کہ سچائی یا حق صرف ایک اللہ کو پسند کرتا ہے اور اس کے ساتھ کسی اور کی شرکت گوارہ نہیں کرتا. اسلئے اے مسلمان تو بھی حق (صداقت. سچائی) اور باطل (باطل یا کفر) کے درمیان شرکت اور میل جول پسند نہ کر. اور حق کو باطل سے الگ رکھ. دنیا میں ہمیشہ حق کا ساتھ دے. چاہے عقل تجھے لاکھ کہے کہ اس میں یہ نقصان ہے وہ نقصان ہے. اور باطل کے پیچھے کبھی نہ لگنا چاہئے عقل تجھے لاکھ کہے اس میں وہ فائدہ ہے یہ فائدہ ہے. عقل کے بجائے ہمیشہ عشق کو پیش نظر رکھنا کہ اسی میں حقیقی زندگی ہے..

��ماخوذ ضرب کلیم ��

��ناقل کلیم الدین خان گونڈوی مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی ��

No comments:

Post a Comment