حضرت نانوتوی کا
حسن سلوک
میں نے حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمۃاللہ علیہ کا واقعہ سنا کہ دہلی کا قیام تھا. حضرت کے خدام میں سے چند مخصوص تلامذہ ساتھ تھے.
حضرت شیخ الہند مولانا محمود الحسن رح،، دوسرے شاگرد مولانا احمد حسن امروہی رح،، حاجی امیر شاہ خاں صاحب مرحوم،، یہ بھی وہاں موجود تھے. مولانا احمد حسن صاحب نے اپنے ہمجولیوں میں بیٹھ کر فرمایا کہ،، بھئی؛ لال کنویں کی مسجد کے جو امام ہیں. ان کی قرات بہت اچھی ہے. کل صبح کی نماز ان کے پیچھے پڑھ لیں
تو شیخ الہند نے غصے میں آ کر فرمایا. کہ تمہیں شرم نہیں آتی، بے غیرت، وہ ہمارے حضرت کی تکفیر کرتا ہے. ہم اس کے پیچھے نماز پڑھیں گے. اور بڑا سخت لہجہ اختیار کیا. یہ جملے حضرت نانوتوی کے کان میں پہنچے.
اگلے دن حضرت نانوتوی ان سب شاگردوں کو لیکر اسی مسجد میں صبح کی نماز پڑھنے کی خاطر پہنچے. اس امام کے پیچھے جاکر نماز پڑھی، سلام پھیرا، چونکہ یہ اجنبی تھے. نمازیوں نے دیکھا.. ہیں تو یہ علماء صورت.. تو پوچھا کون ہیں؟ معلوم ہوا یہ مولانا محمد قاسم صاحب ہیں. اور وہ ان کے شاگرد شیخ الہند مولانا محمود الحسن. اور یہ مولانا احمد حسن محدث امروہی. ان کے تلمیذ ہیں.
امام کو سخت حیرت ہوئی کہ میں رات دن انہیں کافر کہتا ہوں اور یہ نماز کے لئے میرے پیچھے آگئے. امام نے خود بڑھ کر مصافحہ کیا اور کہا کہ حضرت میں آپ کی تکفیر کرتا تھا. میں آج شرمندہ ہوں. آپ نے میرے پیچھے نماز پڑھی. حالانکہ میں آپ کو کافر کہتا رہا.
حضرت نے فرمایا کوئی بات نہیں. میرے دل میں آپ کے اس جذبے کی قدر ہے. اور زیادہ عزت دل میں بیٹھ گئی ہے.. کیوں؟اس واسطے کہ آپ کو جو روایت پہنچی کہ میں توہین رسول کرتا ہوں.. رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی توہین.. تو آپ کی غیرت ایمانی کا یہی تقاضا تھا. ہاں البتہ شکایت اس کی ہے کہ روایت کی تحقیق کرنی چاہئے تھی.
مگر بہرحال تکفیر کی بنیاد توہین رسول ہے. اور توہین رسول جو مسلمان کریگا. تکفیر واجب ہوگی. دائرہ اسلام سے خارج ہو گا. تو فرمایا میرے دل میں آپ کی غیرت ایمانی کی قدر ہے. ہاں شکایت اس لئے ہے کہ ایک بار تحقیق کر لیتے کہ خبر صحیح ہے یا غلط،، تو میں یہ عرض کر نے آیا ہوں.. کہ یہ خبر غلط ہے. اور میں خود اس شخص کو دائرہ اسلام سے خارج سمجھتا ہوں جو ادنی درجہ میں بھی نبی کی توہین کرے
اور اگر آپ کو یقین نہ آئے تو آپ کے ہاتھ پر ابھی اسلام قبول کر تا ہوں.. اشہد ان لا الٰہ الا اللہ الخ.. اب امام بیچارہ قدموں پر گر پڑا،، بچھا جاتا ہے..
تو بات صرف یہ تھی کہ ان حضرات کے دلوں میں. تواضع للہ. اور ادب مع اللہ. اس درجہ رچا ہوا تھا. کہ نفسانیت کا شائبہ نہ رہا تھا. استہزاء اور تمسخر تو بجائے خود ہے. اپنے معاندوں کی بھی بے قدری نہیں کرتے تھے.. بلکہ صحیح محمل پر اتار کر یہ کہتے ہیں. کہ جو ہمیں کافر کہتے ہیں. یہ ان کی قوت ایمانی کی دلیل ہے. البتہ تحقیق کر لینی چاہئے کہ واقعی میں ہم توہین رسول کرتے ہیں؟ ہم معاذاللہ دشمنان رسول ہیں یا دوستان رسول ہیں.. اس کی تحقیق ان کو واجب تھی.. بلا تحقیق حکم نہیں لگانا چاہیے..
تو میرے عرض کر نے کا مقصد یہ ہے کہ ادب اور تادب دین کی بنیاد ہے.
جس کو عارف رومی رح نے کہا ہے
ازخدا خواہیم تو فیق ادب
بے ادب محروم گشت از فضل رب
حق تعالٰی شانہ کے ہاں اس کا کوئی مقام نہیں جو گستاخ اور بے ادب ہے
ایسے تھے ہمارے اکابرین مشائخ اور علماء کرام
اللہ ہم گنہگاروں کو بھی ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
ماخوذ خطبات حکیم الا سلام
احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
No comments:
Post a Comment