Monday, 21 September 2015

حکایات سعدی


____________________________
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ قسطنطنیہ کے ساحل پر ایک ایسا نوجوان آیا جس کی پیشانی نور سے چمک رہی تھی_لوگوں نے اس نوجوان کو بہترین اخلاق والا پایا اور اسے نہایت عزت و احترام کے ساتھ نذدیکی مسجد میں لے گئے_
امام مسجد بھی اس نوجوان کے اخلاق سے متاثر ہوا اور اس کے کھانے پینے کا انتظام کیا اور ادے رہنے کے لیے مسجد سے ملحقہ ایک حجرہ بھی دیا_
ایک دن امام مسجد نے اس نوجوان سے کہا کہ صاحبزادے ! تم کوئی خاص کام تو کرتے نہیں ہو مسجد کی صفائی کر دیا کرو اور یہاں موجود کوڑا کرکٹ اُٹھا لیا کرو_
امام مسجد کی بات سننے کے بعد وہ نوجوان مسجد سے ایسا غائب ہوا کہ دوبارہ مسجد میں نظر نہیں آیا_
اس واقعہ کے کچھ عرصہ بعد امام مسجد ایک دن بازار میں ضروریاتِ زندگی کے کچھ سامان کی خریداری کے لیے تشریف لے گئے تو انہیں وہی نوجوان بازار میں نظر آیا_امام مسجد نے اس کو ملامت کی اور اس سے کہا کہ تم کام چور ہو تم ایک معمولی کام نہیں کر سکے جبکہ میرا مقصود مسجد کی خدمت تھا_
امام مسجد کی بات سن کر نوجوان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے اور وہ کہنے لگا کہ امام مسجد صاحب ! مسجد سے چلا جانا میری کاہلی یا کام چوری نہیں بلکہ حقیقت یہ تھی مجھے مسجد میں اپنے سوا کوئی گندگی نظر نہ آئی چنانچہ میں نے خیال کیا کہ اللہ عز وجل کے گھر کو اس گندگی سے پاک کر دوں_بے شک دونوں جہانوں کی سعادتیں حاصل کرنے کے لیے اس سے بہتر کوئی راستہ نہیں ہے_
مقصود بیان:-
____________
حضرت شیخ سعدی رحمتہ اللہ علیہ اس حکایت میں عجز و انکساری کی بہترین مثال بیان کر رہے ہیں_آپ رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ عجز و انکساری سے بڑھ کر کوئی نعمت نہیں اور اللہ عز و جل کو بھی عجز و انکساری بہت پسند ہے_ہمارے آقا , تاجدارِ عرب و عجم حضور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ساری زندگی عاجزی کے ساتھ گزاری اور ہمیں بھی اس کی تعلیم دی_غرور و تکبر صرف اللہ عز و جل کی ذات کے لیے ہے جو تمام جہانوں کا مالک ، خالق اور رازق ہے_
(حکایاتِ شیخ سعدی سے اقتباس)

No comments:

Post a Comment