Monday, 14 September 2015

نفسیات غلامی

��نفسیات غلامی ��

شاعر بھی ہیں پیدا علماء بھی، حکما بھی ��
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ ��

مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک ��
ہر ایک ہے گو شرح معافی میں یگانہ ��

بہتر ہے کہ شیروں کو سکھادیں رم آہو ��
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ ��

کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضامند ��
تاویل مسائل کو بناتے ہیں بہانہ ����

مطلب (1)علامہ نے اس نظم میں غلاموں کی اس ذہنیت کی بات کی ہے جو غلامی کے دور کی وجہ سے ان میں پیدا ہو جاتی ہے.یہاں ان کے نزدیک برصغیر کے لوگوں کی وہ غلامی ہے جو انگریزی حکومت کے زمانے میں تھی. اپنے پہلے شعر میں علامہ کہتے ہیں کہ ہم دیکھتے ہیں کہ غلامی کے زمانے میں بھی غلام قوموں میں شاعر بھی پیدا ہو تے ہیں اور علماء اور مفکر بھی. لیکن ان کی شاعری، ان کے علم اور ان کے حکمت کا مقصود وہ نہیں ہوتا جو ان جیسے آزاد قوموں کے لوگوں کا ہوتا ہے. ان کا جو مقصد ہوتا ہے. علامہ اقبال نے اگلے دو شعروں میں بیان کیا ہے.

مطلب (2) (3)غلام قوموں میں جیسا کہ پہلے شعر میں کہا گیا ہے، شاعر بھی پیدا ہو تے ہیں اور عالم اور حکیم بھی اور ان میں ہر کوئی اپنے علم کی شرح کر نے میں درجہ کمال پر پہنچا ہوا ہوتا ہے. اور اپنے اپنے میدان میں یکتا اور بے مثل بھی ہوتا ہے. لیکن اللہ کے ان بندوں کا صرف ایک کام ہوتا ہے اور وہ یہ کہ اپنی شاعری اپنے علم اپنی حکمت کے ذریعے اپنی قوم کے شیروں کو ہرنوں کی طرح بزدل بنا دیا جائے. مراد ہے کہ بہادری کا سبق دینے کے بجائے اپنی قوم کے لوگوں کو بزدلی کا درس دیا جائے تاکہ وہ غلامی میں اور زیادہ پختہ ہو جائیں..

مطلب (4)غلام قوموں کے علماء حکماء شاعر اور دوسرے ہنرمند اور فنکار مغنی دینی اور علمی قسم کے مسئلوں کے من گھڑت معنی پیدا کرتے ہیں اور ان غلط معانی کو بہانہ بنا کر اپنی قوم کے غلام لوگوں کو غلامی کرنے پر مزید رضا مند کرتے ہیں اور یہ سب کچھ وہ اپنے مفادات واغراض کے پیش نظر اور اپنے حکمران آقاؤں کو خوش کرنے کے لئے کرتے ہیں. علامہ نے اسی رویے اور مزاج کو غلامی کی ذہنیت (نفسیاتی غلامی) کہا ہے..

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ ہم سب کو اپنے علم پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے
حق بات کہنے کی توفیق عطا فرمائے
اخلاص کی دولت سے مالامال فرمائے آمین

��ماخوذ ضرب کلیم ��

��احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی ��

No comments:

Post a Comment