معاملات خراب ہو نے کی وجہ
دین اسلام ہمیں اس بات کی تعلیم دیتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ بنا کر رکھیں. سچی بات تو یہ ہے کہ بندہ سلجھانے کی نیت کرلے تو بڑے بڑے مسئلے سلجھا لیتا ہے
اور اگر الجھانے پر آجائے تو ہر بات الجھ جاتی ہے. الجھانا کون سا مشکل کام ہے. ہمیں چاہئے کہ ہم معاملات کو سلجھانے کی کوشش کیا کریں
معاملات خراب کیسے ہوتے ہیں.. غصے کی وجہ سے... ذرا سی بات پر آپے سے باہر ہو جاتے ہیں. ایسی بات کردی کہ بیوی سارہ دن روتی رہی.. ایسی بات کر دی کہ دوسرے بھائی کا دل دکھ گیا. یاد رکھئے.. بیماریوں میں سے سب سے بری دل کی بیماری.. اور دل کی بیماریوں میں سے سب سے بری دل آزاری..
کسی کا دل توڑ دینا... آج ہم اس کو گناہ ہی نہیں سمجھتے.. اور ہم کن کا دل توڑتے ہیں... اپنوں کا. کسی نے کیا خوب کہا ہے.
شنیدم کہ مردانِ راہِ خدا
دلِ دشمناں راہم کردن نہ تنگ
تُرا کہ میسر شَوَدی مقام
کہ با دوستاں راہم پے کار جنگ
میں نے سنا ہے کہ جو مردانِ راہ خدا ہوتے ہیں. وہ تو دشمنوں کے دل بھی تنگ نہیں کیا کرتے.. تجھے یہ مقام کہاں سے ملا کہ تو اپنوں کے ساتھ برسر پیکار ہے.
چنانچہ آج معمولی بات پر بھی بھائی بہن کے گھر جانا چھوڑ دیتا ہے حیرت کی بات ہے
غصہ پینے کا انعام
اللہ مارے اس غصے کو.. اس نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، جس کسی سے پوچھو،، دوسرے کی رپوٹ.. دماغ گرم،، دماغ boil (ابل) کر رہا ہوتا ہے. بھاپ بنی رہتی ہے.. ایسا نہیں ہونا چاہئے مومن ایسے غصے کو دباتا ہے
حدیث پاک میں آتا ہے. اگر کسی کے ساتھ کسی نے زیادتی کی اور یہ بندہ بدلہ لے سکتا تھا، مگر اللہ کی خاطر یہ اس کو معاف کر دے تو اللہ رب العزت اس معاف کر نے کی وجہ سے، قیامت کے دن اس کو اپنے چہرے کا دیدار عطاء فرمائیں گے..
تو بھئی. آج جو بندہ غصے کا گھونٹ پیے گا کل کو اللہ تعالٰی اس کو اپنے دیدار کا شربت پلائیں گے. کتنا مزے کا سودا ہے..
اس غصے سے اللہ کی پناہ مانگیں یہ انسان کی زندگی اجیرن بنا کر رکھ دیتا ہے. ہاں اس کا یہ مطلب بھی نہیں کہ بندہ انتظامی امور میں بھی نہ سمجھائے، اس کی بھی ضرورت ہوتی ہے، وگرنہ بات سمجھ نہیں آتی.. لیکن ایک غصہ ہوتا یہ ہوتا ہے کہ بس.. Flash up (آگ بگولہ) ہوجانا، ذرا سی بات پر اسی وقت بھڑک اٹھنا. ایسا ٹھیک نہیں.. تھوڑا تحمل مزاجی کا مظاہرہ کرنا چاہیے..
دعا ہے اللہ رب العزت ہم سب کو تحمل مزاج اور برد بار بنائے آمین
ماخوذ خطبات ذوالفقار
احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
No comments:
Post a Comment