Monday, 14 September 2015

اللہ کے راستے کا غم

��اللہ کے راستہ کا غم ��

��آں چنانش انس و مستی داد حق��

��کہ نہ زنداں یادش آمد نے غسق ��

ارشاد فرمایا کہ مولانا جلال الدین رومی رحمۃاللہ علیہ کے اس شعر کا حاصل یہ ہے کہ اللہ کے راستہ کے غم سے گھبراؤ مت. اللہ کے راستہ کا غم اتنا قیمتی ہے کہ دنیا بھر کی خوشیوں سے زیادہ قیمتی ہے

جتنی منزل قیمتی ہوتی ہے. اس کے راستے کی تکلیف بھی اتنی ہی قیمتی ہوتی ہے. اور محسوس بھی نہیں ہوتی. تو اللہ کے قرب کی منزل اتنی قیمتی ہے کہ دنیا میں اس سے قیمتی کوئی منزل نہیں ہے. پس اللہ کے راستہ کا غم کتنا قیمتی ہوگا. ان کے راستے کے کانٹے کتنے قیمتی ہونگے

حضرت یوسف علیہ السلام کو زلیجا نے گناہ کی دعوت دی. اور اس نے دھمکی دی. کہ اگر میری فرمائش پوری نہیں کروگے. تو ہم تمہیں قید خانے میں ڈلوادینگے. ہم بادشاہ کی بیوی ہیں .

آپ نے اس سے کچھ نہیں کہا بلکہ اللہ سے رجوع کیا، اپنے رب کو پکارا(رب السجن احب الی مما ید عوننی الیہ) اس آیت میں اشارہ ہے کہ ایسے وقت میں اللہ سے رجوع ہو جاؤ. جب زمین والے تم کو ستائیں تو آسمان والے سے فریاد کرو. زمین کے مقناطیس جب ہم کو کھینچیں تو آسمان والے تو آسمان والے جاذب کو پکارو. جس کی قوت جاذبہ سب سے بڑی ہے

اور سیدنا حضرت یوسف علیہ السلام کی جان پاک نے جو اعلان کیا تھا وہی اعلان کرو کہ (رب السجن احب الی مما ید عوننی الیہ) اے میرے پالنے والے تیرے راستہ کا قید خانہ مجھے پیارا ہے. اس گناہ سے جس کی طرف یہ بادشاہ مصر کی عورت مجھے بلا رہی ہے.

اور مجھے دھمکی دے رہی ہے کہ اگر گناہ نہیں کروگے تو تم کو قید خانہ میں ڈال دیں گے. لیکن اے خدا تجھے ناخوش کرنے سے مجھے قید خانہ احب ہے.

تیری لذت قرب کے سامنے ساری دنیا کے رنج و صعوبتیں ہیچ ہیں. تیرے راستے کا غم سارے عالم کی خوشیوں سے مجھے عزیز تر ہے. تیری راہ کا قید خانہ اور قید خانے کا غم مجھے محبوب ہی نہیں بلکہ احب ہے اس خبیث بات سے جس کی طرف یہ عورتیں مجھے بلا رہی ہیں.

اور یہاں جمع کا صیغہ کیوں نازل ہوا جبکہ بلانے والی واحد تھی. یعنی صرف زلیخا بلا رہی تھی. تو حضرت حکیم الامت نے تفسیر بیان القرآن میں لکھا ہے کہ اللہ تعالٰی نے جمع کا صیغہ اس لئے نازل کیا کیونکہ مصر کی عورتوں نے سفارش کی تھی. کہ اے یوسف اس کی خواہش پوری کر دو.

لہذا گناہ میں تعاون کرنا. مدد کرنا. اور سفارش کرنا اتنا ہی جرم ہے جتنا اصل مجرم کا. اسی لئے رشوت کا دلانے والا اتنا ہی مجرم ہے. جتنا لینے والا.

اور یہ آیت اللہ تعالٰی کی شان محبوبیت کی بھی دلیل ہے. کہ اللہ تعالٰی اتنے پیارے ہیں. کہ جن کے راستے کے قید خانے احب ہوتے ہیں. تو ان کی راہ کے گلستاں کیسے ہو نگے.

دعا ہے کہ اے اللہ تیرے راستے کے لئے ہم سب کو قبول فرما

اے اللہ تیرے راستے میں جدو جہد کرنے کی توفیق عطا فرما

اے اللہ تیرے راستے میں اپنے جان و مال کو قربان کرنے کی توفیق عطا فرما آمین

��ماخوذ درس مثنوی مولانا روم ��
��محبت و معرفت ��

��احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی ��

No comments:

Post a Comment