حضرت عبداللہ بن مبارک
کے دل میں پیشی کا خوف
عبداللہ بن مبارک رح وہ بزرگ تھے جن کے درس حدیث میں ایک ایک وقت میں چالیس چالیس ہزار لوگ موجود ہوتے تھے. ان کی وجہ سے لاکھوں لوگوں کی زندگی بدلی.
جب ان کی وفات کا وقت قریب آیا تو شاگردوں سے کہا.. مجھے چارپائی سے اٹھا کر زمین پر لٹادو. شاگرد دیکھنے لگے. حضرت نے حکم دیا.. جلدی کرو.. الامر فوق الادب.. امر ادب سے فائق ہوا کرتا ہے، چنانچہ شاگردوں نے آپ کو زمین پر لٹا دیا..
نیچے فوم کا کوئی گدا بھی نہیں تھا. کچی زمین تھی. جب انہوں نے اپنے استاد کو زمین کے اوپر لٹایا تو یہ دیکھ کر ان کی چیخیں نکل گئیں کہ ان کے استاد اپنا رخسار زمین کے اوپر رگڑنے لگے. اور اپنی سفید ریش کو پکڑ کر روتے ہوئے کہنے لگے.
اللہ. عبداللہ کے بڑھاپے پر رحم فرما..
یہ نہیں کہا. میں محدث ہوں. میں مفسر ہوں. میں نے حدیث کی خدمت کی. میں نے طلبہ کو پڑھایا، راتوں کو جاگتا رہا، میں نے تیرے سامنے اتنے سجدے کئے. میں نے اتنی اچھی زندگی گزاری، کوئی عمل اللہ کے حضور پیش نہیں کیا..
اگر پیش کیا تو کیا پیش کیا؟ کہنے لگے،، اللہ؛؛ عبداللہ کے بڑھاپے پر رحم فرما. گویا اپنے سفید بالوں کو اللہ رب العزت کے حضور پیش کیا..
جب اتنے اتنے بڑے اکابر کا یہ حال تھا تو پھر ہم کس کھیت کی گاجر مولی ہیں. قیامت کے دن ہمارا کیا حال ہوگا؟ اس لئے آج اپنے گناہوں سے سچی معافی مانگنے کی ضرورت ہے. ایسا نہ ہو کہ قیامت کے دن اللہ رب العزت کے سامنے شرمندگی اٹھانی پڑے..
دعا ہے اللہ رب العزت ہم سب کو توبہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور خاتمہ بالخیر فرمائے آمین
ماخوذ خطبات ذوالفقار
احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
No comments:
Post a Comment