Thursday 15 September 2016

حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ کی ولادت و وفات

حاجی امداد اللہ پیدائش : 1818ء

وفات: 1899ء

ولادتترميم

صوفی بزرگ ، عالم دین ، نانوتہ ضلع سہارن پور (اتر پردیش ) بھارت میں‌ پیداہوئے ۔ نسب کے لحاظ سے فاروقی تھے۔ سات برس کی عمر میں یتیم ہوگئے ۔ ذاتی شوق سے فارسی اور عربی کی تعلیم حاصل کی ۔ دہلی جا کر اس وقت کے فضلاء اجل سے تفسیر ، حدیث اور فقہ کا درس لیا۔ بعد ازاں حضرت میاں جی نور محمد جھنجھانوی (میانجو) کی توجہ خاص سے سلوک کی منازل طے کیں اور خرقہ خلافت حاصل کیا۔ 1844ء میں حج بیت اللہ سے مشرف ہوئے۔ وطن واپس آکر رُشد و ہدایت کا سلسلہ شروع کیا۔

آپ کے متبعین میں عوام مولانا رشید احمد گنگوہی مولانا محمد یعقوب نانوتوی ، مولانا اشرف علی تھانوی ، مولانا فیض الحسن سہارن پوری ، شیخ الہند مولانا محمود الحسن اور مولانا حسین احمد مدنی جیسے بلند پایہ علماء دین بھی شامل تھے۔ 1859ء میں‌آپ ہندوستان سے ہجرت کرکے مکہ معظمہ چلے گئے اور بقیہ زندگی وہیں بسر کی۔ اس لیے مہاجر مکی کے لقب سے مشہور ہیں۔ وفات کے بعد جنت اللعلی میں دفن ہوئے۔ علم دین اور تصوف پر تقریباً دس کتب ، جہاد اکبر ، گلزار معرفت، مرقومات امدایہ ، مکتوبات امدادیہ ، درنامہ غضب ناک ، ضیاء القلوب، تصنیف کیں۔ حضرت حاجی صاحب  نسباً فاروقی تھے، آپ کا سلسلہ نسب پچیس واسطوں سے سلسلہ تصوف کے مشہور بزرگ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمة الله علیہ سے ملتا ہے۔ آپ کے والدماجد کا اسم گرامی محمد امین تھا۔حضرت حاجی صاحب1233ھ میں تھانہ بھون میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم وتربیت کے بعد حجاز مقدس چلے گئے ۔ حجاز سے واپس تشریف لائے تو ارشادو تلقین سے ہندوستان کو منور کر دیا۔ الله تعالٰیٰ نے انہیں دل ودماغ کی بہت سی خوبیوں سے نوازا تھا، آپ انیسویں صدی کی تین عظیم الشان تحریکوں کا منبع تھے:

مسلمانوں کی دینی تعلیم کو فروغ دینے کے لیے جو تحریک انیسویں صدی میں شروع ہوئی اور جس نے بالآخر دیوبند کی شکل اختیار کی ، انہی کے خلفا ومریدین کی پُرخلوص جدوجہد کا نتیجہ تھی۔

باطنی اصلاح وتربیت کے لیے انیسویں صدی کے آخر اوربیسویں صدی کے شروع میں حضرت حاجی امداد الله صاحب  کے خلیفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی او رحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة الله علیہ کے مرید حضرت مولانا محمد الیاس رحمة الله علیہ کی کوششیں خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ الله تعالٰیٰ نے انہیں جو دینی بصیرت اور جذبہ عنایت فرمایا تھا ، اس کی مثال اس عہد میں مشکل سے ملے گی۔

انیسویں صدی کی تیسری اہم تحریک آزادیٴ وطن کی تھی ، اس سلسلہ میں خود حضرت صاحب  او ران کے متعلقین نے جوکارہائے نمایاں سر انجام دیے، وہ ہندوستان کی تاریخ میں آب زر سے لکھنے کے قابل ہیں ۔ حضرت حاجی صاحب  کی والدہ ماجدہ شیخ علی محمد صدیقی نانوتوی کی صاحبزادی اور حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی رحمة الله علیہ بانی چمنستان ( دارالعلوم دیوبند) کے خاندان سے تھیں ۔ آپ جب پیدا ہوئے تو والد ماجد نے امداد حسین نام رکھا، تاریخی نام ” ظفر احمد‘ ‘ ہے۔ حضرت شاہ محمد اسحاق محدث دہلوی نے آپ کا نام بجائے امداد حسین کے امدادالله کر دیا، پہلا نام پسند نہ آیا کہ اس سے شرک کی بو آتی ہے ، چناں چہ اس نام کو حاجی صاحب  نے بھی ترک کر دیا اور کتابوں نیز خطوط میں ہمیشہ امدادلله ہی لکھا کرتے تھے۔