♧ کامیاب تدریس کے رہنما اصول♧
☆از:مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم، صدر جامعہ دارالعلوم کراچی،پاکستان
♡☆♧♧♧♧♧♧♧♧♧♧☆♡
(1) اخلاص و للہیت۔
(2) طلبہ سے گہری ہمدردی اور محبت و شفقت۔
(3) ان کے علم و کردار کو بنانے کی دھن۔
(4) درس کی پورے اہتمام سے تیاری۔
(5) رجوع الیٰ اللہ اور دعا کا اہتمام۔
(6) طلبہ میں متعلقہ فن کی دلچسپی پیدا کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی اہمیت و افادیت کو راسخ کرنا، استاذ کے لیے کلیدِ کامیابی ہے۔
(7)ہر طالب علم پر اُس کی ذہنی سطح اور نفسیاتی کمزوریوں اور خوبیوں کو سامنے رکھتے ہوئے انفرادی توجہ دینا ۔
(8) حوصلہ افزائی: ممتاز طلبہ کی حوصلہ افزائی ضروری ہے، مگر انداز اس طرح اختیار کیا جائے کہ کمزور طلبہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ کمزور طالب علم کو کبھی بے وقوف اور غبی جیسے الفاظ نہ کہے جائیں کہ ان سے اُس کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔ ایسے طلبہ کا کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔
(9) جو طالب علم اچھا سوال کرے، اُسے سراہا جائے اور سب طلبہ کو سنوایا جائے۔
(10)ایک ایک بات کو مختلف اسالیب اور مثالوں سے سمجھایا جائے تاکہ ہر طالب علم کو اُس کی ذہنی سطح کے مطابق راہنمائی مل سکے۔ ذی استعداد طلبہ مشکل بات کو اصطلاحی الفاظ سے بآسانی سمجھ جاتے ہیں، جبکہ کمزور طلبہ کو وہی بات سمجھانے کے لیے عام فہم الفاظ اور مثالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف کتاب میں درج شدہ مثالوں پر اکتفا نہ کیا جائے۔ اپنی طرف سے نئی مثالیں پیش کی جائیں اور پھر طلبہ سے نئی مثالیں پوچھی جائیں۔
(11) استاذ کو درس کے لیے مطالعہ اور تحقیق تو اپنی اور طلبہ کی ضرورت کے مطابق کرنی چاہیے، لیکن درس میں صرف اتنا بتانا چاہیے جتنے کی انہیں ضرورت ہے۔ اپنی ساری معلومات اور تحقیقات کو انڈیل دینا، ان کے ساتھ اور اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ناانصافی ہے۔
(12) مطالعہ کے دوران سبق کا تجزیہ کرلیا جائے تو استاذ کے لیے تفہیم اور طلبہ کے لیے اُس کا فہم آسان ہوجاتا ہے۔ پھر جب تک سبق کا پہلا جز اچھی طرح سب طلبہ نہ سمجھ جائیں، اگلا جز شروع نہ کیا جائے۔ مثلاً جب تک طلبہ کو صورتِ مسئلہ اچھی طرح نہ سمجھادی جائے اُس وقت تک اُس میں علماء کا اختلاف نہ بیان کیا جائے اور جب تک یہ اختلاف ان کے ذہن نشین نہ ہوجائے، دلائل شروع نہ کیے جائیں۔ جب تک پہلی دلیل پوری طرح ان کے سمجھ میں نہ آئے دوسری دلیل شروع نہ کی جائے۔ جب تک کسی دلیل کا ایک جواب واضح طور پر نہ سمجھادیا جائے دوسرا بیان نہ کیا جائے۔ وغیر ذلک۔
(13) ابتدائی درجات میں تحریری اور زبانی مشق زیادہ سے زیادہ کرائی جائے۔ خصوصاً نحو، صرف اور ادب میں اس کا خیال رکھا جائے۔
(14)یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ سب طلبہ سبق میں دلچسپی لے رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں، درس کے دوران اور درس کے اختتام پر استاذ کو چاہیے کہ اُن سے سوالات کرتا رہے، خصوصاً کمزور طلبہ سے کہ وہ کیا سمجھے؟
(15)کوشش ہونی چاہیے کہ عبارت پڑھنے کا موقع ہر طالب علم کو ملے، ایسا نہ ہو کہ پورے سال صرف چند طلبہ تو عبارت پڑھیں، باقی محروم رہیں، اس کے لیے یا تو باری مقرر کردی جائے، لیکن اس سے بہتر یہ ہے کہ ہر روز استاذ ہی عبارت پڑھنے والے کا انتخاب کرے۔
(16) طلبہ کو درس سے پہلے مطالعہ کا اور درس کے بعد کسی وقت تکرار کا پابند کیا جائے۔
(17) درس سے دلچسپی پیدا کرنا: جب کوئی مشکل بحث آئے یا طلبہ کی اکتاہٹ کا اندیشہ ہو تو طبیعتوں میں نشاط پیدا کرنے کے لیے کوئی دلچسپ چٹکلا، لطیفہ، مختصر قصہ یا دلچسپ شعر سنادیا جائے۔
(18) طلبہ کے ساتھ نہ حد سے زیادہ بے تکلفی ہو کہ وہ گستاخ بن جائیں، نہ اتنی سنجیدگی یا رعب کہ وہ ضروری سوال کرنے سے بھی جھجکنے لگیں۔ v (19) طلبہ کو صرف کتاب پڑھانا مقصود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ متعلقہ فن سے مناسبت اور اس کا ملکہ بیدار کرنے کی بھی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔
(20) انداز تخاطب میں شائستگی۔
(21) اپنا عملی نمونہ فن تدریس بہت نازک اور محنت طلب فن ہے اور اس کی جزئیات بے شمار ہیں۔ اس میں قدم قدم پر اپنی اپج اور اجتہادی صلاحیت سے کام لے کر نت نئی راہیں تلاش کرنی پڑتی ہیں۔ ہر طالب علم کے لیے بسا اوقات الگ طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، کسی خاص لگے بندھے طریقے کا استاذ کو پابند کرنا، نہ مناسب ہے نہ ممکن۔ ہر موقع کے لیے اُسے خود ہی طریقہ ایجاد کرنا پڑتا ہے۔
البتہ مذکورہ بالا جن امور کا ذکر میں نے کیا ہے، وہ اصولی درجے کے ہیں اور ہر کامیابی چاہنے والے استاذ کے لیے ان شاء اللہ مفید ہیں ـ
www.deeneislam.com