Saturday 27 February 2016

مولانا تقی عثمانی صاحب

♧ کامیاب تدریس کے رہنما اصول♧

☆از:مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد  رفیع عثمانی صاحب دامت برکاتہم، صدر جامعہ دارالعلوم کراچی،پاکستان
♡☆♧♧♧♧♧♧♧♧♧♧☆♡
(1) اخلاص و للہیت۔ 
(2) طلبہ سے گہری ہمدردی اور محبت و شفقت۔ 
(3) ان کے علم و کردار کو بنانے کی دھن۔ 
(4) درس کی پورے اہتمام سے تیاری۔ 
(5) رجوع الیٰ اللہ اور دعا کا اہتمام۔ 
(6) طلبہ میں متعلقہ فن کی دلچسپی پیدا کرنا اور ان کے دلوں میں اس کی اہمیت و افادیت کو راسخ کرنا، استاذ کے لیے کلیدِ کامیابی ہے۔ 
(7)ہر طالب علم پر اُس کی ذہنی سطح اور نفسیاتی کمزوریوں اور خوبیوں کو سامنے رکھتے ہوئے انفرادی توجہ دینا ۔

(8) حوصلہ افزائی: ممتاز طلبہ کی حوصلہ افزائی ضروری ہے، مگر انداز اس طرح اختیار کیا جائے کہ کمزور طلبہ احساس کمتری کا شکار نہ ہوں۔ کمزور طالب علم کو کبھی بے وقوف اور غبی جیسے الفاظ نہ کہے جائیں کہ ان سے اُس کا حوصلہ ٹوٹ جائے گا۔ ایسے طلبہ کا کا حوصلہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ 
(9) جو طالب علم اچھا سوال کرے، اُسے سراہا جائے اور سب طلبہ کو سنوایا جائے۔ 
(10)ایک ایک بات کو مختلف اسالیب اور مثالوں سے سمجھایا جائے تاکہ ہر طالب علم کو اُس کی ذہنی سطح کے مطابق راہنمائی مل سکے۔ ذی استعداد طلبہ مشکل بات کو اصطلاحی الفاظ سے بآسانی سمجھ جاتے ہیں، جبکہ کمزور طلبہ کو وہی بات سمجھانے کے لیے عام فہم الفاظ اور مثالوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ صرف کتاب میں درج شدہ مثالوں پر اکتفا نہ کیا جائے۔ اپنی طرف سے نئی مثالیں پیش کی جائیں اور پھر طلبہ سے نئی مثالیں پوچھی جائیں۔ 
(11) استاذ کو درس کے لیے مطالعہ اور تحقیق تو اپنی اور طلبہ کی ضرورت کے مطابق کرنی چاہیے، لیکن درس میں صرف اتنا بتانا چاہیے جتنے کی انہیں ضرورت ہے۔ اپنی ساری معلومات اور تحقیقات کو انڈیل دینا، ان کے ساتھ اور اپنے فرائض منصبی کے ساتھ ناانصافی ہے۔ 
(12) مطالعہ کے دوران سبق کا تجزیہ کرلیا جائے تو استاذ کے لیے تفہیم اور طلبہ کے لیے اُس کا فہم آسان ہوجاتا ہے۔ پھر جب تک سبق کا پہلا جز اچھی طرح سب طلبہ نہ سمجھ جائیں، اگلا جز شروع نہ کیا جائے۔ مثلاً جب تک طلبہ کو صورتِ مسئلہ اچھی طرح نہ سمجھادی جائے اُس وقت تک اُس میں علماء کا اختلاف نہ بیان کیا جائے اور جب تک یہ اختلاف ان کے ذہن نشین نہ ہوجائے، دلائل شروع نہ کیے جائیں۔ جب تک پہلی دلیل پوری طرح ان کے سمجھ میں نہ آئے دوسری دلیل شروع نہ کی جائے۔ جب تک کسی دلیل کا ایک جواب واضح طور پر نہ سمجھادیا جائے دوسرا بیان نہ کیا جائے۔ وغیر ذلک۔ 
(13) ابتدائی درجات میں تحریری اور زبانی مشق زیادہ سے زیادہ کرائی جائے۔ خصوصاً نحو، صرف اور ادب میں اس کا خیال رکھا جائے۔ 
(14)یہ اطمینان کرنے کے لیے کہ سب طلبہ سبق میں دلچسپی لے رہے ہیں اور سمجھ رہے ہیں، درس کے دوران اور درس کے اختتام پر استاذ کو چاہیے کہ اُن سے سوالات کرتا رہے، خصوصاً کمزور طلبہ سے کہ وہ کیا سمجھے؟ 
(15)کوشش ہونی چاہیے کہ عبارت پڑھنے کا موقع ہر طالب علم کو ملے، ایسا نہ ہو کہ پورے سال صرف چند طلبہ تو عبارت پڑھیں، باقی محروم رہیں، اس کے لیے یا تو باری مقرر کردی جائے، لیکن اس سے بہتر یہ ہے کہ ہر روز استاذ ہی عبارت پڑھنے والے کا انتخاب کرے۔ 
(16) طلبہ کو درس سے پہلے مطالعہ کا اور درس کے بعد کسی وقت تکرار کا پابند کیا جائے۔ 
(17) درس سے دلچسپی پیدا کرنا: جب کوئی مشکل بحث آئے یا طلبہ کی اکتاہٹ کا اندیشہ ہو تو طبیعتوں میں نشاط پیدا کرنے کے لیے کوئی دلچسپ چٹکلا، لطیفہ، مختصر قصہ یا دلچسپ شعر سنادیا جائے۔ 
(18) طلبہ کے ساتھ نہ حد سے زیادہ بے تکلفی ہو کہ وہ گستاخ بن جائیں، نہ اتنی سنجیدگی یا رعب کہ وہ ضروری سوال کرنے سے بھی جھجکنے لگیں۔ v (19) طلبہ کو صرف کتاب پڑھانا مقصود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ متعلقہ فن سے مناسبت اور اس کا ملکہ بیدار کرنے کی بھی ضرور کوشش کرنی چاہیے۔ 
(20) انداز تخاطب میں شائستگی۔ 
(21) اپنا عملی نمونہ فن تدریس بہت نازک اور محنت طلب فن ہے اور اس کی جزئیات بے شمار ہیں۔ اس میں قدم قدم پر اپنی اپج اور اجتہادی صلاحیت سے کام لے کر نت نئی راہیں تلاش کرنی پڑتی ہیں۔ ہر طالب علم کے لیے بسا اوقات الگ طریقہ اختیار کرنا پڑتا ہے، کسی خاص لگے بندھے طریقے کا استاذ کو پابند کرنا، نہ مناسب ہے نہ ممکن۔ ہر موقع کے لیے اُسے خود ہی طریقہ ایجاد کرنا پڑتا ہے۔ 
البتہ مذکورہ بالا جن امور کا ذکر میں نے کیا ہے، وہ اصولی درجے کے ہیں اور ہر کامیابی چاہنے والے استاذ کے لیے ان شاء اللہ مفید ہیں ـ
       www.deeneislam.com

Wednesday 17 February 2016

عربی

من طرائف اللغة العربية
یہ عربی کا ایک ایسا شعر ہے جس کو پڑھتے وقت زبان کو حرکت نہیں دینی پڑتی:
آب همي وهم بي أحبابي
همهم ما بهم وهمي مابي
------ ------ ------
اور اس شعر کو پڑھتے وقت ہونٹوں کو بالکل حرکت نہیں ہوتی:
قطعنا على قطع القطا قطع ليلة
سراعا على الخيل العتاق اللاحقي
-------------
ایک عجیب و غریب شعر:
اس شعر کو آپ دائیں سے بائیں پڑھیں یا اوپر سے نیچے، شعر ایک سا ہی رہتا ہے.
ألوم صديقي وهذا محال
صديقي أحب كلام يقال
و هذا كلام بليغ الجمال
محال يقال الجمال خيال
------------
بعض لوگوں نے کہا کہ عربی زبان میں الف بہت زیادہ استعمال ہوتا ہے، تو کسی نے ایسا خطبہ کہا جس میں الف بالکل نہیں ہے.
حمدت من عظمت منته وسبغت نعمته وسبقت رحمته غضبه، وتمت كلمته، ونفذت مشيئته، وبلغت قضيته، حمدته حمد مُقرٍ بربوبيته، متخضع لعبوديته، متنصل من خطيئته، متفرد بتوحده، مؤمل منه مغفرة تنجيه يوم يشغل عن فصيلته وبنيه، ونستعينه ونسترشده ونستهديه، ونؤمن به ونتوكل عليه وشهدت له شهود مخلص موقن، وفردته تفريد مؤمن متيقن، ووحدته توحيد عبد مذعن، ليس له شريك في ملكه ولم يكن له ولي في صنعه، جلَّ عن مشير ووزير، وعن عون ومعين ونصير ونظير علم ولن يزول كمثله شيءٌ وهو بعد كل شيءٍ .
رب معتز بعزته، متمكن بقوته، متقدس بعلوّه متكبر بسموّه ليس يدركه بصر، ولم يحط به نظر قوي منيع، بصير سميع، رؤوف رحيم، عجز عن وصفه من يصفه، وضل عن نعته من يعرفه، قرب فبعد وبَعُد فقرب، يجيب دعوة من يدعوه، ويرزقه ويحبوه، ذو لطف خفي، وبطش قوي، ورحمة موسعة، وعقوبة موجعة، رحمته جنة عريضة مونقة، وعقوبته جحيم ممدودة موبقة، وشهدت ببعث محمد رسوله وعبده وصفيه ونبيه ونجيه وحبيبه وخليله .
-----------
ایک ایسا خطبہ جس میں کوئی نقطہ نہیں ہے:
الحمد لله الملك المحمود ، المالك الودود مصور كل مولود ، مآل كل مطرود ساطع المهاد وموطد الأوطاد ومرسل الأمطار، ومسهل الأوطار وعالم الأسرار ومدركها ومدمر الأملاك ومهلكها ومكور الدهور ومكررها ومورد الأمور ومصدرها عم سماحه وكمل ركامه وهمل وطاوع السؤال والأمل أوسع الرمل وأرمل أحمده حمدا ممدودا وأوحده كما وحد الأواه وهو الله لا إله للأمم سواه ولا صادع لما عدله وسواه، أرسل محمدا علما للإسلام ، وإماما للحكام ،
بشکریہ ڈاکٹر شفاعت ربانی صاحب.

Thursday 4 February 2016

موافقت مخالفت ہر دور میں ہوئی ہے

موافقت مخالف ہر دور میں ہوئی ہے

میرا روڈ ایک دعائیہ تقریب میں احقر کا جانا ہوا اور ساتھ میں ہمارے مدرسے کے قاری کلیم الدین صاحب گونڈوی بھی تھے اس تقریب میں شرکت کے لئے کلیان سے ایک بریلوی مکتب فکر کے عالم اور نائب امام بھی تشریف لائے ہوئے تھے سلام و کلام کے بعد دعا کے لئے وہ ہاتھ اٹھائے تو بہت لمبی دعا کئی سارے درود اور بزرگوں کے نام جس سے وہ اپنی دعا کو مزین کررہے تھے

احباب حیرت جب ہوئی جب ان سے دعا کے بعد کچھ تبصرہ شروع ہوا وہاں پر موجود اکثر حضرات پولیس سے وابستہ تھے یا ریٹائرڈ تھے بہر حال بڑے بھائی نے اپنی دعاؤں سے تو لوگوں کو مسحور کرلیا تھا اب گفتگو سے بھی مسحور کرنے لگے تھے ان کا ایک ایک جملہ نفرت ہی نفرت کے کانٹوں سے بھرا ہوا تھا

کہنے لگے اہل حدیث اور وہابی یہی دہشت گرد ہیں اور میں تو حکومت وقت سے گزارش کرتا ہوں کہ ان کو جیلوں میں بند کیا جائے ان پر مقدمہ درج کیا جائے ہمارا ایک بھی سنی بریلوی مسلک کا فرد کسی بم دھماکے میں ملوث نہیں ہے جتنے جرائم ہوتے ہیں سب یہی اہل حدیث وہابی دہشت گرد ہی انجام دیتے ہیں

ان کا تعلق ہمیشہ دہشت گرد تنظیموں سے رہتا ہے داعش کو دیکھو ان سے جتنے لوگ منسلک ہیں سب یہی ہیں احقر اور قاری کلیم ہم دونوں اس کے منہ کو دیکھ رہے ہیں کیا بک رہا ہے مجھ سے برداشت نہیں ہوا میں نے کہا کہ جناب فلسطین میں کون وہابی اہل حدیث دہشت گردی کر رہے ہیں وہ تعجب سے میرا منھ دیکھنے لگا

میں نے کہا کہ جناب ہم ہندوستان میں کس دور سے گزر رہے ہیں اور آپ کے خیالات ایسے ہیں آپ کہہ کیا رہے ہیں اس پر غور کریں اور اپنے خیالات کو اپنی سوچ کو بدلیں آپ ہمارے یہاں بوریولی میں تشریف لائیں ہم آپ کو بتائیں گے نہیں بلکہ دکھائیں گے کہ اتفاق و اتحاد کسے کہتے ہیں لیکن وہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہے ہیں بولتے ہی جارہے ہیں اور جناب کا تیور اور چڑھ گیا شاید انہیں یہ پہلے سے ہی محسوس ہوگیا تھا کہ جن کو وہ وہابی کہہ رہے ہیں انکی نظر میں وہ ہم بھی ہیں

بہر حال علیک سلیک کے بعد سلسلہ منقطع ہوا اور ہماری روانگی ہوئی تو ہمارے قاری صاحب کہہ رہے ہیں اس کے دل میں اتنی نفرت کی آگ بھری ہوئی ہے میں تو اس جیسا انسان دیکھا نہیں محفل میں روشن خیال عصری تعلیم یافتہ افراد ہی تھے ہم تینوں کے علاوہ دل میں میں بار بار یہی خیال آرہا تھا کہ وہ کیا سبق حاصل کریں گے بڑے بھائی کی گفتگو سے اور جبتک ایسی سوچ کے افراد موجود رہیں گے تو مسلمانوں کو فلاح کہاں سے میسر ہوگی اتحاد و اتفاق کہاں سے آئے گا

احباب موافقت و مخالفت حق کی ہوتی رہی ہے اور ہوتی رہے گی ہمیں سوچنا ہے کہ ہم کون سا طریقہ اختیار کریں کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق ہوجائے اگر برخوردار کی طرح سے جن کا میں نے ذکر کیا ہے ہم بھی اپنا نظریہ بنالیں تو اس میں اور ہم میں فرق کیا رہ جائے گا

اسی طرح سے جب سیاست کی بات ہوتی ہے اور فسادات میں مسلمانوں کی املاک اور عزتوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے اور وہ فسادات ہفتوں مہینوں تک جاری رہتے ہیں اور کوئی سیاسی جماعت مسلمانوں کی مدد کو نہیں آتی تو مسلمانوں کو احساس ہوتا ہے یہ کوئی ہمارے ہمدرد نہیں سب صرف زبانی دلاسہ دیتے ہیں موقع پر کوئی بھی ہمارے کام نہیں آتا ہے

ہماری مسلمانوں کی کوئی سیاسی جماعت ہونی چاہئے جو الیکشن میں حصہ لے اور ہم ان کا ساتھ دیں لیکن خوش قسمتی سے جب کوئی مسلمان مرد مجاہد آگے بڑھتا ہے تو ہم اسی میں کیٹے نکالنا شروع کر دیتے ہیں میں مثال دیتا ہوں اویسی برادران کی کہ وہ کون سی ایسی جگہ ہے جہاں ان کا کنٹرول ہو ان کا رقبہ وہاں تک ہو اور وہاں گجرات کی طرح مظفر نگر کی طرح ہفتوں مہینوں مسلمانوں کا قتل عام یا مسلمان عورتوں کی عصمت دری کی گئی ہو

ایک شرابی جواری مسلمان بھی ایک مسلمان عورت کی جب کفار عصمت دری کی کوشش کریں تو جان کی بازی لگا دیتا ہے وہ تو سالار ملت کے خانوادے ہیں. نمازی ہیں اغیار کے نرغوں میں حق کی صدا بلند کرنے والے ہیں. ظالموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مسلمانوں کے حقوق کی لڑائی لڑ رہے ہیں. اللہ رب العزت نے انہیں عصری تعلیم و دینی تعلیم کی سوجھ بوجھ عطا فرمائی ہے. بے باک ہیں فصیح اللسان ہیں. حق گو ہیں. مرد مجاہد ہیں.

اللہ رب العزت نے ان حضرات کو بڑی خوبیوں سے نوازا ہے احباب اب ایک کہاوت ہے جس درخت پر پھل زیادہ ہوتے ہیں پتھر بھی انہیں پر زیادہ پڑتے ہیں تو اویسی برادران پر بھی مخالف حضرات پتھر برسارہے ہوں تو یہ ان کی مقبولیت کی وجہ سے ہے اور الحمد للہ اکثریت مسلمانوں کے دلوں میں ان کی محبت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے

احباب ہمیشہ ایسی مائیں بچہ نہیں جنتیں ہیں جو سر پر کفن باندھ کر اغیار سے مسلمانوں کے حقوق کے لئے سچے دل سے لڑائی لڑے میری تمام دوستوں سے مودبانہ درخواست ہے کہ اویسی برادران کا تہہ دل سے ساتھ دیں اور اگر کچھ نہیں کر سکتے ہیں تو ان کے لئے دعا کریں اگر دل اس کی بھی گنجائش نہ ہو تو کم از کم مخالفت نہ کریں.

لکھنے میں جو کمی کوتاہی ہوگی اس کی معافی چاہتا ہوں.

اللہ رب العزت اویسی برادران کی حفاظت فرمائے آمین

اور امت مسلمہ پر ان کا سایہ تادیر قائم فرمائے آمین

اور ان کو مزید کامیابی عطا فرمائے آمین

احقر محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی