استاذ, طالب علم کو کتنی مقدار سزا دے سکتے ہیں ؟؟
🌱
اتنی سزا دیجائے جو تحمل سے زائد نہ ہو اور تین ما سے زائد نہ ہو
دیوبند کا فتوی ملاحظہ ہو
طلبہ کو مارنے پیٹنے کے متعلق شرعی حدود کیا ہیں؟
والسلام
Jun 12,2007 Answer: 671
(فتوى: 244/ل=244/ل)
بچوں کے اولیاء کی اجازت سے بضرورت تعلیم مارنا، سزا دینا شرعا درست ہے مگر بچوں کے تحمل سے زائد نہیں، ایک دفعہ میں تین ضربات سے زیادہ نہ مارے، لکڑی وغیرہ سے نہ مارے۔ قال في الدرالمختار: وإن وجب ضرب ابن عشر علیھا بید لا بخشبة قولہ (بید) أي ولایجاوز الثلاث، وکذلک المعلم لیس لہ أن یجاوزھا قال علیہ السلام لمرداس المعلم *إیاک أن تضرب فوق الثلاث؛ فإنک إذا ضربت فوق الثلاث اقتص اللّٰہ منك* وظاہرہ أنہ لایضرب بالعصا في غیر الصلاة أیضا (الشامي ط زکریا: ج ۲ص۵)
واللہ تعالیٰ اعلم
دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند
کیا سزا میں زیادتی سے استاذ ظالم شمار ہونگے
🌱
جی ہاں اگر استاذ زیادتی کریگا تو یہ ظلم شمار ہوگا اس لئے استاذ کو چاہئے کہ شفقت اور نرمی سے پڑھائے
حضرت قاری صدیق باندوی رح آداب المعلمین میں فرماتے ہیں
کہ آجکل مارنے کا زمانہ نھیں رہا
نرمی سے پڑھانا چاہئے اور غصہ میں تو ہرگز نہ مارے کہ زیادتی ہونے کا قوی احتمال ہے اور فرماتے ہیں کہ جو ڈاکٹر مریض پہ غصہ کرے وہ کیسے علاج کرسکتا ہے
مستفاد
از آداب المعلمین
نیز بنوریہ کا سوال جواب ملاحظہ ہو
سوال:
کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں علماء دین شرع متین کہ آج کل بعض اسکولوں اور مدارس میں اساتذہ کرام بچوں کو سبق کچا یاد ہونے پر یا بالکل یاد نہ ہونے پر اس قدر مارتے ہیں کہ بچہ کے جسم پر بہت واضح قسم کے لال یا نیلے نیلے نشان پڑتے ہیں اور جسم پر سوجن آجاتی ہے یا زخم آجاتے ہیں اور معصوم بچے اس مار پیٹ کی وجہ سے بہت زیادہ خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ اسکول یا مدرسہ جانے کے نام سے چڑ جاتے ہیں اور بہت روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ استاذ یا ٹیچر بہت مارتے ہیں اور بعض بچے تعلیم چھوڑ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور لارڈ میکالے کی تعلیم (یعنی اسکول کی تعلیم) کے لیے ضد کرتے ہیں اس بارے میں مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات درکار ہیں:
۱… کیا اساتذہ کرام کو ہماری شریعت مطہرہ نے یہ اجازت دی ہے کہ وہ بچوں کو جو کہ علم دین شوق سے سیکھنے آتے ہیں، ان کو سبق کچا یاد ہونے یا یاد نہ ہونے پر اس قدر ماریں کہ وہ علم سیکھنے کو خیرباد کہہ دیں۔
۲… اساتذہ کرام بچوں کے منہ پر بھی تھپڑ مارتے ہیں جو کہ حدیث نبویﷺ کے بھی خلاف ہے اگر بچہ علم دین سیکھنے کو چھوڑ کر انگریز کی تعلیم کی طرف چلا گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا، بچہ یا اساتذہ کرام، جن کی مار پٹائی کی وجہ سے بچہ دینی تعلیم سے محروم ہوگیا اور تعلیمی اداروں سے نفرت کرنے لگا۔
۳… کیا جو اساتذہ کرام بچوں کو سخت مار مارتے ہوں ان کی اﷲ پاک پکڑ فرمائے گا یا معاف کردے گا، کیونکہ بعض اساتذہ کرام مارنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ گھر پر نہیں بتانا اور بات کو یعنی پٹائی کو بھول جاؤ، انتظامیہ کو پتہ نہ چلے، اس طرح اگر بچہ معاف کردے تو کیا بچے کی اس زبردستی معافی کا اعتبار ہے یا نہیں جبکہ بچہ معصوم ہو۔
۴…اگر انتظامیہ کو شکایت کی جاتی ہے تو بعض مرتبہ انتظامیہ یہ جواب دیتی ہے کہ استاد کا حق مارنے کا اور اگر آپ کو اعتراض ہے تو اپنے بچے کو ادارہ سے اٹھالیں کہیں اور داخل کردیں کیا ایسا جواب دینا درست ہے، جبکہ پاس کوئی دوسرا مدرسہ بھی نہ ہو اس طرح بچے کا علم دین سے دور ہونے کا گناہ انتظامیہ پر ہوگا یا نہیں؟
۵… بعض قاری حضرات یہ بات بھی کہتے ہیں کہ بچہ کے جسم کے جس جگہ علم دین سیکھنے کے لیے پٹائی لگے گی، جہنم جسم کے اس حصے کو نہیں جلائے گی، کیا یہ بات صحیح ہے اور استاد سے اس بارے میں کوئی پوچھ نہیں ہوگی۔
۶… والدین کا شوق تھا بچے کو علم دین سکھانے کا مگر بچہ اس طرح مار پٹائی کی وجہ سے علم دین سیکھنے سے محروم ہوگیا تو کیا والدین کو اس شوق اور کوشش پر اجر ملے گا یا نہیں۔
آپ سے گزارش ہے کہ ان سوالات کے جوابات شریعت مطہرہ کی روشنی میں دے کر مشکور فرمائیں۔
جواب:
اس کا اصولی جواب یہ ہے کہ استاد کو چاہیے کہ وہ بچوں کو شفقت و نرمی سے پڑھائے۔ بے جا سختی، ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ سے کام نہ لے، بلکہ اپنے رعب سے کام چلائے، اس کے باوجود اگر کوئی طالب علم سبق یاد نہیں کرتا اور وقت ضائع کرتا ہے تو اس طالب علم کی اصلاح کی غرض سے اس کی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے استاد اس کی صرف کھلے ہاتھ سے ہلکی پٹائی کرسکتا ہے، استاد کا طالب علم کو ڈنڈے سے مارنا جائز نہیں، بلکہ ہاتھ سے بھی زیادہ سے زیادہ تین دفعہ اس کو ہلکی مار لگا سکتا ہے، جس سے بدن پر نشان نہ پڑے، نیز چہرہ پر اس کو ہرگز نہ مارے اور جسم کے دیگر نازک حصوں پر نہ مارے۔
اب سوالات کا اختصار کے ساتھ جوابات ملاحظہ ہوں:
۱… اس قدر مارنا ہرگز جائز نہیں۔
۲… منہ پر مارنا جائز نہیں اور اگر استاد کی بہیمانہ پٹائی سے کوئی بچہ بھاگ گیا اور قرآن کریم کی تعلیم ترک کردی تو اس کا گناہ استاد پر ہوگا۔
۳… استاد کا بچہ کو سخت مار مارنا جائز نہیں، اس پر استاد کی پکڑ ہوگی، ایسی مار پر استاد کا اپنی مار کو انتظامیہ یا بچہ کے گھر والوں سے چھپانا اس گناہ سے بچنے کے لیے ہرگز کافی نہیں، اگر بچہ بالغ ہے، تو اسی سے معافی مانگے اور اگر نا بالغ ہے، تو فی الحال اس کی معافی معتبر نہیں، ہاں بالغ ہونے کے بعد معاف کرسکتا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے توبہ بھی کرے، تب معافی ہوگی۔
۴… انتظامیہ کا اس طرح کہنا جائز نہیں، بلکہ انتظامیہ پر واجب ہے کہ وہ اساتذہ کو خلاف شرع بچوں کو مارنے سے منع کرے اور اگر وہ منع نہیں کرتی، بلکہ اساتذہ کے اس فعل کی تائید کرتی ہے تو اس صورت میں اساتذہ کے خلاف شرع مار لگانے کے گناہ میں انتظامیہ بھی شامل ہوگی۔
۵۔… یہ محض غلط ہے۔
۔ … ان شاء اﷲ تعالیٰ ان کو اپنی محنت و کوشش کرنے کا ثواب ملے گا۔