Saturday 28 November 2015

استاذ طالب علم کو کتنی مقدار سزا دے سکتے ہیں

استاذ, طالب علم کو کتنی مقدار سزا دے سکتے ہیں ؟؟
🌱
اتنی سزا دیجائے جو تحمل سے زائد نہ ہو اور تین ما سے زائد نہ ہو
دیوبند کا فتوی ملاحظہ ہو

طلبہ کو مارنے پیٹنے کے متعلق شرعی حدود کیا ہیں؟
والسلام
  Jun 12,2007  Answer: 671
(فتوى: 244/ل=244/ل)

بچوں کے اولیاء کی اجازت سے بضرورت تعلیم مارنا، سزا دینا شرعا درست ہے مگر بچوں کے تحمل سے زائد نہیں، ایک دفعہ میں تین ضربات سے زیادہ نہ مارے، لکڑی وغیرہ سے نہ مارے۔ قال في الدرالمختار: وإن وجب ضرب ابن عشر علیھا بید لا بخشبة قولہ (بید) أي ولایجاوز الثلاث، وکذلک المعلم لیس لہ أن یجاوزھا قال علیہ السلام لمرداس المعلم *إیاک أن تضرب فوق الثلاث؛ فإنک إذا ضربت فوق الثلاث اقتص اللّٰہ منك* وظاہرہ أنہ لایضرب بالعصا في غیر الصلاة أیضا (الشامي ط زکریا: ج ۲ص۵)
واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند



کیا سزا میں زیادتی سے استاذ ظالم شمار ہونگے
🌱

جی ہاں اگر استاذ زیادتی کریگا تو یہ ظلم شمار ہوگا اس لئے استاذ کو چاہئے کہ شفقت اور نرمی سے پڑھائے
حضرت قاری صدیق باندوی رح آداب المعلمین میں فرماتے ہیں
کہ آجکل مارنے کا زمانہ نھیں رہا
نرمی سے پڑھانا چاہئے اور غصہ میں تو ہرگز نہ مارے کہ زیادتی ہونے کا قوی احتمال ہے اور فرماتے ہیں کہ جو ڈاکٹر مریض پہ غصہ کرے وہ کیسے علاج کرسکتا ہے

مستفاد
از آداب المعلمین

نیز بنوریہ کا سوال جواب ملاحظہ ہو

سوال:

کیا فرماتے ہیں اس مسئلہ کے بارے میں علماء دین شرع متین کہ آج کل بعض اسکولوں اور مدارس میں اساتذہ کرام بچوں کو سبق کچا یاد ہونے پر یا بالکل یاد نہ ہونے پر اس قدر مارتے ہیں کہ بچہ کے جسم پر بہت واضح قسم کے لال یا نیلے نیلے نشان پڑتے ہیں اور جسم پر سوجن آجاتی ہے یا زخم آجاتے ہیں اور معصوم بچے اس مار پیٹ کی وجہ سے بہت زیادہ خوفزدہ ہوجاتے ہیں۔ اسکول یا  مدرسہ جانے کے نام سے چڑ جاتے ہیں اور بہت روتے ہیں اور کہتے ہیں کہ استاذ یا ٹیچر بہت مارتے ہیں اور بعض بچے تعلیم چھوڑ دینے کا مطالبہ کرتے ہیں اور لارڈ میکالے کی تعلیم (یعنی اسکول کی تعلیم) کے لیے ضد کرتے ہیں اس بارے میں مندرجہ ذیل سوالوں کے جوابات درکار ہیں:
۱… کیا اساتذہ کرام کو ہماری شریعت مطہرہ نے یہ اجازت دی ہے کہ وہ بچوں کو جو کہ علم دین شوق سے سیکھنے آتے ہیں، ان کو سبق کچا یاد ہونے یا یاد نہ ہونے پر اس قدر ماریں کہ وہ علم سیکھنے کو خیرباد کہہ دیں۔ 
۲… اساتذہ کرام بچوں کے منہ پر بھی تھپڑ مارتے ہیں جو کہ حدیث نبویﷺ کے بھی خلاف ہے اگر بچہ علم دین سیکھنے کو چھوڑ کر انگریز کی تعلیم کی طرف چلا گیا تو اس کا ذمہ دار کون ہوگا، بچہ یا اساتذہ کرام، جن کی مار پٹائی کی وجہ سے بچہ دینی تعلیم سے محروم ہوگیا اور تعلیمی اداروں سے نفرت کرنے لگا۔ 
۳… کیا جو اساتذہ کرام بچوں کو سخت مار مارتے ہوں ان کی اﷲ پاک پکڑ فرمائے گا یا معاف کردے گا، کیونکہ بعض اساتذہ کرام مارنے کے بعد یہ کہتے ہیں کہ گھر پر نہیں بتانا اور بات کو یعنی پٹائی کو بھول جاؤ، انتظامیہ کو پتہ نہ چلے، اس طرح اگر بچہ معاف کردے تو کیا بچے کی اس زبردستی معافی کا اعتبار ہے یا نہیں جبکہ بچہ معصوم ہو۔
۴…اگر انتظامیہ کو شکایت کی جاتی ہے تو بعض مرتبہ انتظامیہ یہ جواب دیتی ہے کہ استاد کا حق مارنے کا اور اگر آپ کو اعتراض ہے تو اپنے بچے کو ادارہ سے اٹھالیں کہیں اور داخل کردیں کیا ایسا جواب دینا درست ہے، جبکہ پاس کوئی دوسرا مدرسہ بھی نہ ہو اس طرح بچے کا علم دین سے دور ہونے کا گناہ انتظامیہ پر ہوگا یا نہیں؟
۵… بعض قاری حضرات یہ بات بھی کہتے ہیں کہ بچہ کے جسم کے جس جگہ علم دین سیکھنے کے لیے پٹائی لگے گی، جہنم جسم کے اس حصے کو نہیں جلائے گی، کیا یہ بات صحیح ہے اور استاد سے اس بارے میں کوئی پوچھ نہیں ہوگی۔ 
۶… والدین کا شوق تھا بچے کو علم دین سکھانے کا مگر بچہ اس طرح مار پٹائی کی وجہ سے علم دین سیکھنے سے محروم ہوگیا تو کیا والدین کو اس شوق اور کوشش پر اجر ملے گا یا نہیں۔  
     آپ سے گزارش ہے کہ ان سوالات کے جوابات شریعت مطہرہ کی روشنی میں دے کر مشکور فرمائیں۔

جواب:

اس کا اصولی جواب یہ ہے کہ استاد کو چاہیے کہ وہ بچوں کو شفقت و نرمی سے پڑھائے۔ بے جا سختی، ڈانٹ ڈپٹ اور مارپیٹ سے کام نہ لے، بلکہ اپنے رعب سے کام چلائے، اس کے باوجود اگر کوئی طالب علم سبق یاد نہیں کرتا اور وقت ضائع کرتا ہے تو اس طالب علم کی اصلاح کی غرض سے اس کی مصلحت کو مدنظر رکھتے ہوئے استاد اس کی صرف کھلے ہاتھ سے ہلکی پٹائی کرسکتا ہے، استاد کا طالب علم کو ڈنڈے سے مارنا جائز نہیں، بلکہ ہاتھ سے بھی زیادہ سے زیادہ تین دفعہ اس کو ہلکی مار لگا سکتا ہے، جس سے بدن پر نشان نہ پڑے، نیز چہرہ پر اس کو ہرگز نہ مارے اور جسم کے دیگر نازک حصوں پر نہ مارے۔ 
اب سوالات کا اختصار کے ساتھ جوابات ملاحظہ ہوں:
۱… اس قدر مارنا ہرگز جائز نہیں۔
۲… منہ پر مارنا جائز نہیں اور اگر استاد کی بہیمانہ پٹائی سے کوئی بچہ بھاگ گیا اور قرآن کریم کی تعلیم ترک کردی تو اس کا گناہ استاد پر ہوگا۔ 
۳… استاد کا بچہ کو سخت مار مارنا جائز نہیں، اس پر استاد کی پکڑ ہوگی، ایسی مار پر استاد کا اپنی مار کو انتظامیہ یا بچہ کے گھر والوں سے چھپانا اس گناہ سے بچنے کے لیے ہرگز کافی نہیں، اگر بچہ بالغ ہے، تو اسی سے معافی مانگے اور اگر نا بالغ ہے، تو فی الحال اس کی معافی معتبر نہیں، ہاں بالغ ہونے کے بعد معاف کرسکتا ہے اور اﷲ تعالیٰ سے توبہ بھی کرے، تب معافی ہوگی۔
۴… انتظامیہ کا اس طرح کہنا جائز نہیں، بلکہ انتظامیہ پر واجب ہے کہ وہ اساتذہ کو خلاف شرع بچوں کو مارنے سے منع کرے اور اگر وہ منع نہیں کرتی، بلکہ اساتذہ کے اس فعل کی تائید کرتی ہے تو اس صورت میں اساتذہ کے خلاف شرع مار لگانے کے گناہ میں انتظامیہ بھی شامل ہوگی۔ 
۵۔… یہ محض غلط ہے۔ 
۔ … ان شاء اﷲ تعالیٰ ان کو اپنی محنت و کوشش کرنے کا ثواب ملے گا۔

Friday 27 November 2015

ایک چڑیا تھی وہ بھی اڑ گئی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
محترم أحباب :  دوستو کی بیحد فرمائش پر مجھے اپنا مضمون " ایک چڑیا تھی وە بھی اڑ گئی "  دوبارہ ارسال کرنا پڑرہا ہے جسے میں نے مئی 2015 میں اپنی لاڈلی اور سب سے چھوٹی بہن کی رخصتی پر اپنے خون دل کی  روشنائی سے لکھا تھا جس کو پڑهکر پتھر سے پتھر دل بھی آنسو بہانے پر مجبور ہوگیا تھا تو لیججئے پھر ایکبار  حاضر خدمت ہے وہ مضمون  تاکہ اسی مضمون کے بہانے ہمیں  اپنی بہنوں کو  یاد کرنے کا سنہرہ موقعہ مل جائے
اللہ تعالٰی ہم سبکی بہنوں کو ہمیشہ اپنے حفظ و امان میں رکھے آمین

🌱🐝  ایک چڑیا تھی وہ بھی اڑ گئی ...........................🐝🌱

محبت ایسی بھی ہوتی ہے . مجھے اس کا احساس آج ہوا ، کیونکہ میں اپنی ہزار کوششوں کے باوجود رات سے اتنی ہمت نہ جٹا پایا کہ گھر فون کرکے والدین کی طبیعت کی خیریت معلوم کرسکوں شادی کے انتظامات کی کیفیت جانوں مہمانوں کی خاطر داری اور ان  کے آمد و رفت  کی روداد سنوں ، لیکن ؟ واللہ سچ کہتا ہوں میری ہمت جواب دے جاتی ہے کہ کہاں سے لاؤں وہ زبان جو ماں سے بات کرسکے اور کہاں سے لاؤں وە ضبط ایوبی کہ جس سے میں ماں کے حالات جان سکوں ، اس کے لئے میں بیحد پریشان ہوں ، کہ کروں تو کیا کروں پوری رات میں بہت رویا بہن کی جدائی نے مجھے بہت رلایا پوری رات کروٹ پر کروٹیں بدلتا رہا ، لیکن نیند نے مجھے بہت ستایا اسے نہ آنا تھا نہ آئی، ہر لمحہ مجھے بہن کی ہر بات اس کا ہر ایک انداز چڑیوں جیسا چہچہانا گھر کے ہر کونے میں آزاد پھرنا ، ماں کی بانہوں میں سمٹنا ، والد کے ہر حکم پر لبیک کہنا ، بهابهیوں کے ساتھ اٹهلانا ، بڑوں چھوٹوں سے پیار سے ملنا ، بچوں کے ساتهہ کھیلنا سب کچھ مجھے  بہت یاد آرہا تھا ،
لیکن کیا کروں مجبور ہوں دنیاوی ریت و رواج اور اپنے سماجی معاشرے سے اور  شریعت کے حکم  سے ورنہ میری بہن مجھ سے جدا نہ ہوتی ، بہن اسمیں میرا کوئی قصور نہیں ہے ، بہن تو مجھے مجرم مت سمجھنا یہ سب جو میں نے کیا یہ سب تیری بھلائی کے لئے کیا تیرے سکهہ چین اور تیری زندگی کے بہتری کے لئے کیا .
میری بہن مجھے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ تیرے جانے سے میرے گھر کی رونق چلی گئی میرے گھر کے در و دیوار سب سونے ہوگئے گھر کے ہر فرد کا چہرہ مرجھا گیا . میری بہن جب  سے تیری ڈولی میرے گھر سے اٹھی ہے اس وقت سے میرا سکون بھی اٹهہ گیا ہے کھانا مجهہ سے روٹھ گیا ہے، لیکن بہن ایک بات ضرور ہوئی ہے میری آنکھیں دلیر ہوگئی ہیں اور آنسو سخی ہوگئے ہیں . یہ دونوں نہ سوئی ہیں اور نہ تھمی ہیں .
لیکن بہن تو میری تنہائی میں آج بھی موجود ہے میں تخیلات میں تمہیں سے باتیں کرتا ہوں اور سوچتا ہوں ، کہ اب ٹیلیفون کرونگا تو کون کہیگی کہ بھیا ماں گھر کے باہر ہے تهوڑی دیر بعد فون کرو ویسے بھیا آپ خیریت سے ہو نہ ، اور یہ بھی سوچتا ہوں کہ اب میری ہلکی سی کھانسی پر اپنے کمرے سے دوڑکر میرے کمرے میں کون آئیگی کہ بھیا کیا ہوا آپ تو ٹھیک ہو نہ . بہن اب مجھے کون بھیا کہکر پکارے گا بہن آج وہ گملے بھی پوچھ رہے ہیں کہ ہمیں اب پانی کون دیگا ، بہن تتلیاں بھی پریشان ہیں کہ اب وہ کس کے ساتھ کھیلیں گی ، اور چمن کے پھول بھی پوچھ رہے ہیں کہ اب اس میں رنگ کیسے بهریگا ،
میری بہن تیرے جانے سے میرے گھر کی روپ ریکھا ہی بدل گئی ، مجھے گھر کے ہر ذرے پرائے لگنے لگے تو تھی تو میرے گھر میں بہار تھی ہر ایک کے لبوں پر مسکان تھی تیرے نام سے گھر میں شہنائی گونجتی تھی،  میری بہن میں جانتا ہوں تجھے میری کمی بہت کھلی ہوگی تیری نگاہیں بار بار مجھے ڈھونڈھ رہی ہونگی تیرا دل اندر سے مجھے صدائیں دے رہا ہوگا تو مجھے یاد کرکے روتی رہی ہوگی ، لیکن میری پیاری بہن مجھے معاف کردینا میں تم سب کی خوشی کے خاطر اتنی دور آیا ہوں ، اپنی غربت کی وجہ سے اتنی دور آیا ہوں ورنہ بہن میری بھی خواہش تھی کہ میں بھی اس خوشی کے موقعہ پر موجود رہوں تیرے قدموں میں محبت کے پھول نچھاور کروں تیری مانگ کو موتیوں سے بھروں تیرے ماتھے کو چاند ستاروں سے سجاؤں تیری پیشانی کو  چوم کر تجھے الوداع کہوں ، لیکن افسوس میری بہن ایسا میں نہ کرسکا اسمیں بھی غریب الوطنی میرے راستے میں دیوار بنکر کهڑی ہوگئی ، لیکن جا میری بہن جا میری دعائیں ہمیشہ تیرے ساتھ ہونگی ، کیا کریں بہن تمہارا اور ہمارا ساتھ شاید اتنے ہی دنوں کا تھا . کاتب تقدیر نے اتنے ہی دنوں کا رزق ہمارے گھر پر لکھا تھا ، تو ہمارے مقدر میں کل تک کے لئے ہی تھی ،   لیکن جا میری بہن جا تجھے تیری سسرال مبارک تیرا اپنا  نیا گھر مبارک اللہ تعالٰی تیرے سہاگ کو سدا قائم و دائم رکھے تو اپنے گھر کی ملکہ بنے تیرے گھر والے تجھے ٹوٹ کر چاہیں ، جا میری بہن جا تجھے تیرے سسر ساس مبارک تجھے تیرے نئے والدین مبارک ، تیرے دیور . تیری نندیں مبارک ، گھر کے صحن و دالان مبارک ، جا میری بہن جا تو بھول جا اپنے میکے کو میری بہن اب تیرا نیا گھر ہی تیرا اصل مسکن ہے ، اب تو اسی گھر کو بنا سنوار اور اپنے دم سے تو اسے رونق بخش ، میری بہن جا اب بھول جا اپنے بھائی انظر کو وہ اب تو اسے پرایا سمجھ اب تو اپنا سارا پیار اور ساری محبتیں اپنے شوہر اور اپنے گهر والوں پر نچھاور کر میری بہن اب تیرے غمخوار اور تیرے سکهہ دکهہ کے ساتھی وہی لوگ ہیں ، لیکن میری بہن ایک بات یاد رکھ کہ جب بھی زندگی میں میری ضرورت پڑے تو تم مجھے ضرور آواز دینا یہ تیرا بھائی تیرے پاس ملیگا ، لیکن میری بہن اسوقت تو مجھے بھول جا اگر مجھ سے کوئی غلطی ہوئی ہو تو اسے معاف کردے میری بہن تیری ہر خوشی میں میری خوشی شامل ہے میری بہن جا تجھے تیری خوشی مبارک ہمیں ہمارے غم مبارک ، ہم رو رو کر اپنا غم ہلکا کرلیں گے . اور ہم تیرے لئے ہمیشہ دعاکریں گے کہ اللہ رب العالمین تجھے ہمیشہ خوش رکھے تیرے خوشیوں کا باغ کبھی بھی نہ مرجھانے پائے اور اللہ تعالٰی تجھے نیک بیوی اور نیک و صالح ماں بنائے اور تجھے اللہ تعالٰی مصلح انسانیت کا علمبردار بنائے .. آمین

ایک  غمخوار بھائی ......
  
انظر حسین کرهی
ضلع سنت کبیر نگر یوپی انڈیا
   مقیم حال ،،، سعودیہ عربیہ

ماں کی عزت کرو مرنے سے پہلے

[23/11 20:16] مولانا منیب الرحمن صاحب: اس پوسٹ کو ضرور پڑھیں
       
   👈🏾👈🏾 ماں 👉🏾👉🏾

کسی گاؤں میں ایک عورت اپنے پانچ سال کے چھوٹے بچے کے ساتھ رہتی تھی۔ کچھ ماہ قبل اُس کے شوہر کا انتقال ہو گیا تھا۔ لہٰذا یہ عورت اپنے اکلوتے بیٹے کی تعلیم و تربیت کیلئے خود ہی لوگوں کے گھروں میں کام کرتی، اُنکے برتن مانجھتی، کپڑے دھوتی اور اُنکے بڑے بڑے گھروں کو یہ اکیلی عورت تن تنہا صاف کرتی۔ صرف اِس لیے کہ اُسکے بیٹے کی کسی چیز میں کوئی کمی نہ رہ جائے۔
وقت گزرتا گیا، اور کئی سال بیت گئے۔ اب اِس کا بیٹا جوان ہو گیا تھا اور کسی اچھی کمپنی میں نوکری کر رہا تھا۔ اُسکی شادی ہو گئی تھی، اور ایک پیارا سا بیٹا بھی تھا۔ اور یہ عورت اب بڑھاپے کی دہلیز پر دستک دے رہی تھی۔
بیٹا شادی کے بعد اور نوکری ملنے کے بعد ماں کا احترام کرنا تو دور کی بات اُسکے ساتھ ڈھنگ سے بات بھی نہ کرتا تھا۔ اِس بوڑھی عورت کی زندگی میں صرف اتنا فرق آیا تھا کہ پہلے یہ غیروں کے برتن اور کپڑے دھوتی تھی، اب اپنے بہو بیٹے کے برتن دھو رہی تھی، پہلے یہ دوسروں کے گھروں کی صفائی کرتی تھی، اب یہ بہو کے ہوتے ہوئے بھی اپنے گھر کی صفائی کرنے پر مجبور تھی۔
خیر جو بھی تھا، لیکن تھی تو یہ ایک ماں، اپنے بیٹے کی خوشی کی خاطر وہ ہر دُکھ جھیلنے کو تیار تھی۔ بیٹے کے پاس دولت کی کمی نہ تھی، اللہ کی دی ہوئی ہر چیز اب اُسکے پاس تھی۔ لیکن ماں کو اُس نے گھر کے ایک الگ کمرے میں چھوڑ رکھا تھا جہاں موسم کی شدت کو روکنے کیلئے کوئی بندوبست نہ تھا۔ اور کئی کئی دِنوں کے بعد جب کبھی وہ اُس کمرے میں جاتا تو صرف ماں کو گزرے وقت کی محرومیاں یاد کروا کر طعنے دینے اور لڑنے جھگڑنے کیلئے۔
ایک دِن سردیوں کی یخ بستہ شام میں اُسکی ماں ایک پھٹے پُرانے کمبل میں سُکڑ کر بیٹھی یہ سوچ رہی تھی کہ، "آج اُسکا بیٹا کام سے واپس آئے گا تو وہ اسے نئے کمبل کا کہے گی، کیونکہ اِس کمبل میں اُسے بہت سردی لگ رہی تھی، اور اب اُسکی کمزور ہڈیوں میں اِس سردی کو برداشت کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ اور اُسے سو فیصد یقین تھا کہ اُسکا بیٹا بڑے پیار سے اُسکی یہ ضرورت پوری کرے گا۔
رات کو بیٹا گھر آیا تو ماں نے بڑے پیار سے اُسے نئے کمبل کا کہا تو، بیٹا غصے سے بولا، "ماں! ابھی ابھی میں کام سے آیا ہوں، اور آتے ہی تم اپنا مطالبہ لے کر آ گئی ہو۔ اور تمہیں پتہ ہے کتنی مہنگائی ہو گئی ہے۔ ابھی تمہارے پوتے کو اسکول داخل کروانا ہے، اُسکا یونیفارم اور کتابیں لینی ہیں، گاڑی کی قسط ادا کرنی ہے۔ میں نے ابھی اپنے لیے جیکٹ خریدنی ہے، تمہاری بہو کیلئے شال لانی ہے۔
تم تو سارا دِن گھر میں ہی رہتی ہو، تمہیں کمبل کی اتنی کیا اشد ضرورت آن پڑی ہے؟ ہم لوگوں نے تو باہر گھومنے جانا ہوتا ہے، تم کسی طرح یہ سردیاں گزار لو، اگلے سال سردیوں سے پہلے پہلے تمہارے کمبل کا کچھ بندوبست کر دونگا۔۔۔!"
بوڑھی ماں خون کے آنسو پی کر چُپ چاپ اپنے بوسیدہ حال کمرے میں واپس آ گئی اور پھٹے ہوئے کمبل کو اوڑھ کر ٹوٹی ہوئی چارپارئی کے کونے میں سُکڑ کر لیٹ گئی۔
صبح جب بیٹے کی آنکھ کھلی تو پتہ چلا، پچھلی رات ماں اللہ کو پیاری ہو گئی۔ بیٹے نے اپنے تمام رشتے داروں کو ماں کے جنازے پر بلایا۔ اور ماں کے کفن دفن اور مہمانوں کی خاطر مدارت پر لاکھوں روپے خرچ کیے۔ جو بھی جنازے میں شریک ہوا، یہی کہتا کہ، "کاش! اللہ ہر کسی کو ایسا بیٹا دے، مرنے کے بعد بھی ماں سے کتنی محبت ہے۔!"
لیکن انہیں یہ نہیں پتہ تھا کہ، دنیا والوں کو دِکھانے کی خاطر جو بیٹا اپنی مری ہوئی ماں کے جنازے پر لاکھوں روپے خرچ کر رہا ہے، پچھلی رات چند سو روپے کے کمبل کے نہ ہونے کی وجہ سے وہی ماں سردی میں سسک سسک کر جان دے گئی۔

میرے عزیز دوستو! ایسی سینکڑوں سچی کہانیاں ہمارے ارد گرد بیتتی ہیں، اپنے ماں، باپ کی قدر اُنکے جیتے جی کرو، اِسی میں ہم سب کی بھلائی ہے۔ مرنے کے بعد قدر کی بھی تو کیا فائدہ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو یہ بات سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔۔۔
آمین!

ہمارے آس پاس بھی تو کہیں کچھ ایسا نہیں ہو رہا ہے ہمیں اس کا دھیان رکھنا ہوگا۔
چاہے وہ ماں کے ساتھ بہن کے ساتھ بہو کے ساتھ کسی کی بیٹی کے ساتھ پڑوسی کے ساتھ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
[23/11 20:33] مولانا منیب الرحمن صاحب: اوڑھ کر مٹی کی چادر بے نشاں ہو جائیں گے..

ایک دن آئیگا ہم بھی داستاں ہو جائیں گے.

اقوال زریں

🍀🍀اقوال زرِّیں🍀🍀

👈 دین کی حفاظت کرو اگرچہ لوگ تمہیں ملامت کرتے رہیں.

👈  تم دوسروں کی عورتوں کا احترام کرو لوگ تمہاری عورتوں کا احترام کرینگے.

👈  کسی پر کیچڑ مت اچھالو اس سے یقیناً تمہارے ھاتھ گندے ھوجائینگے.

👈  پاؤں پھسل جائے تو پھسل جائے زبان کو نہ پھسلنے دو.

👈  بہتر نصیحت اس وقت اثر کرتی ھے جب نصیحت کرنے والا مخلص ہو

👈 دوست کو نصیحت تنہائی میں کرو اور اسکی تعریف محفل میں کرو

👈 جس شخص کو دوسروں کی عیب جوئی کرتے پاؤ اسکو اپنے دوستوں سے خارج کردو.

👈 جب جنازہ کے ساتھ جاؤ تو میت کے غم سے زیادہ اپنا غم کرو اور خیال کرو کہ وہ ملک الموت کا منہ دیکھ چکا اور مجھے ابھی دیکھنا ھے.

👈 مظلوم کی بددعا سے بچو کیونکہ اسکی بددعا شعلے کی طرح آسمان پر جاتی ھے.

👈  اچھا دوست کھودینا خود کو کھودینا ھے.

👈  سچ بات کہنے کی عادت ڈالو چاھے وہ کتنی ہی کڑوی ھو.

👈 جھوٹ بول کر معمولی فائدہ اٹھانے والے ایک دن بڑا نقصان اٹھائینگے.

👈 ہر وہ دل جس میں خوفِ خدا نہ ھو ویرانہ ھے.

👈 اچھا دوست حاصل کرنے کے لئے خود اچھا دوست بنو.

👈  اچھا دوست خدا کا دیا ھوا بہترین تحفہ ھے.

🌹🌹🌹🌹🌹

بدشکل شہزادے کی سمجھداری

💐                                      

        ╭┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄╮
       ❈ बिस्मिल्लाहिर्रहमानिर्रहीम ❈
        ╰┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄┄╯

     ɢʊʟɨՏɦtaaռ ҡɨ ҡaɦaռɨʏaaռ    
     ︶︶︶︶︶︶︶︶︶︶︶02

   👤 بد شکل شہزادے کی سمجھ داری

👑  ایک شہزادہ بدصورت تھا اور اس کا قد بھی چھوٹا تھا۔ اس کے دوسرے بھائی نہایت خوبصورت اور اچھے ڈیل ڈول کے تھے۔ ایک بار بادشاہ نے بدصورت شاہزادے کی طرف ذلّت اور نفرت کی نظر سے دیکھا۔ شہزادہ نے اپنی ذہانت سے باپ کی نگاہ کو تاڑ لیا اور باپ سے کہا ’’اے ابّا جان! سمجھ دار ٹھگنا لمبے بیوقوف سے اچھا ہے۔ ضروری نہیں ہے کہ جو چیز دیکھنے میں بڑی ہے وہ قیمت میں بھی زیادہ ہو۔ دیکھیے ہاتھی کتنا بڑا ہوتا ہے، مگر حرام سمجھا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں بکری کتنی چھوٹی ہے مگر اس کا گوشت حلال ہوتا ہے۔ ساری دنیا کے پہاڑوں کے مقابلہ میں طور بہت چھوٹا پہاڑ ہے لیکن خدا کے نزدیک اس کی عزت اور مرتبہ بہت زیادہ ہے (کیونکہ حضرت موسیٰ ؑ نے اس پہاڑ پر خدا کا نور دیکھا تھا) کیا آپ نے سنا ہے کہ ایک دبلے پتلے عقلمند نے ایک بار ایک موٹے بیوقوف سے کہا تھا کہ اگر عربی گھوڑا کمزور ہو جائے تب بھی وہ گدھوں سے بھرے ہوئے پورے اصطبل سے اچھا اور طاقتور ہوتا ہے! بادشاہ شہزادے کی بات سن کر مسکرایا، تمام امیر اور وزیر خوش ہوئے اور اس کی بات سب کو پسند آئی۔ لیکن شہزادے کے دوسرے بھائی اس سے جل گئے اور رنجیدہ ہوئے۔ جب تک انسان اپنی زبان سے بات نہیں کرتا ہے اس وقت تک اس کی اچھائیاں اور بُرائیاں ڈھکی چھپی رہتی ہیں۔ ہر جنگل کو دیکھ کر یہ خیال نہ کرو کہ وہ خالی ہوگا، تمہیں کیا خبر کہ اس میں کہیں شیر سو رہا ہو۔ میں نے سنا ہے کہ اسی زمانے میں بادشاہ کو ایک زبردست دشمن کا سامنا کرنا پڑا۔ جب دونوں طرف کی فوجیں آمنے سامنے آئیں اور لڑائی شروع کرنے کا ارادہ کیا تو سب سے پہلے جو شخص لڑنے کے لیے میدان میں نکلا وہی بدصورت شہزادہ تھا۔ اور اس نے پکار کر کہا: میں وہ آدمی نہیں ہوں کہ تم لڑائی کے دن میری پیٹھ دیکھ سکو۔ میں ایسا بہادر ہوں کہ تم میرا سر خاک اور خون میں لتھڑا ہوا دیکھو گے، یعنی میں دشمن سے لڑتے لڑتے جان دے دوں گا مگر ہمت نہ ہاروں گا! جو لوگ خواہ مخواہ لڑائی پر آمادہ ہوتے ہیں وہ خود اپنے خون سے کھیلتے ہیں یعنی مفت جان گنواتے ہیں اور جو لڑائی کے میدان سے بھاگ جاتے ہیں وہ پوری فوج کے خون سے کھیلتے ہیں! یہ کہہ کر شہزادے نے دشمن کی فوج پر بہت سخت حملہ کیا اور کئی بڑے بڑے بہادروں کو قتل کر دیا۔ جب باپ کے سامنے آیا تو آداب بجا لایا اور کہا: اے ابّا جان! آپ نے میرے دبلے پتلے کمزور جسم کو ذلّت کی نگاہ سے دیکھا اور ہر گز میرے ہنر کی قیمت کو نہ سمجھا۔ آپ کو معلوم ہونا چاہیے کہ پتلی کمر والا گھوڑا ہی لڑائی کے میدان میں کام آتا ہے آرام اور آسائش میں پلا ہوا موٹا تازہ بیل کام نہیں آسکتا! کہتے ہیں دشمن کی فوج بہت زیادہ تھی اور شہزادے کی طرف سپاہیوں کی تعداد کم تھی کچھ نے بھاگنے کا ارادہ کیا، شہزادے نے ان کو للکارا اور کہا اے بہادرو! کوشش کرو اور دشمن کا مقابلہ کرو، یا پھر عورتوں کا لباس پہن لو۔ اس کی بات سن کر سپاہیوں کی ہمت بڑھ گئی اور سب دشمن کی فوج پر ٹوٹ پڑے اور اس کو مار بھگایا اور دشمن پر اسی دن فتح حاصل کی۔ بادشاہ نے شہزادے کو پیار کیا اور اپنی گود میں بٹھایا۔ اور روز بروز اس سے محبت بڑھنے لگی اور اس کو اپنا ولی عہد بنایا۔ دوسرے بھائیوں نے یہ حال دیکھا تو حسد کی آگ میں جلنے لگے اور ایک دن بد شکل شہزادے کے کھانے میں زہر ملا دیا۔ اس کی بہن نے کھڑکی سے دیکھ لیا اور شہزادے کو خبردار کرنے کے لیے کھڑکی کے دروازے زور سے بند کیے۔ شہزادہ اس کی آواز سے چونک پڑا اور اپنی ذہانت سے سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کالا ہے، کھانا چھوڑ دیا اور کہنے لگا، یہ تو نہیں ہوسکتا ہے کہ بے ہنر لوگ زندہ رہیں اور ہنر مند مر جائیں۔ اگر ہما دنیا سے ختم ہو جائے، تب بھی کوئی شخص الّو کے سایہ میں آنا پسند نہ کرے گا! باپ کو اس واقعہ کی اطلاع دی گئی تو اس نے شہزادے کے سب بھائیوں کو بلایا ان کو مناسب سزا دی۔ اس کے بعد ہر ایک کو اپنے ملک کا ایک ایک حصّہ دے دیا۔ تاکہ آپس میں جھگڑا فساد نہ کریں۔ اس طرح یہ فتنہ اور فساد ختم ہوا۔

  .        ┄┄┅┅━━═۞═━━┅┅┄┄

👍🏻  سچّی بات یہ ہے کہ دو فقیر ایک کمبل اوڑھ کر آرام سے لیٹ سکتے ہیں لیکن دو بادشاہ ایک ملک میں نہیں رہ سکتے: اللہ کا ایک بندہ آدھی روٹی کھا لیتا ہے اور آدھی دوسرے بھوکے شخص کو دے دیتا ہے، مگر ایک بادشاہ کا یہ حال ہوتا ہے کہ اگر دنیا کے بڑے حصّے پر قبضہ کر لے تب بھی اس کو باقی دنیا پر قبضہ کرنے کی فکر سوار رہتی ہے! ٭٭٭      

      ╭┄─┄─┄─┄─┄─┄─┄─┄─╮
      ┆✾ιѕlaнe мaaѕнra grp ✾
      ╰┄─┄─┄─┄─┄─╮
         Đσ ɴσт αdd αɴчтɦɪɴɢ
      ╰┄─┄─┄─┄─┄─┄─┄─┄─╯