Thursday 29 October 2015

مردان خدا

��������������مردان خدا ������������������

وہی ہے بندہ حر جس کی ضرب ہے کاری... نہ وہ کہ حرب ہے جس کی تمام عیاری ��ازل سے فطرت احرار میں ہیں دوش بدوش...قلندری وقبا پوشی وکلہ داری ��زمانہ لے کے جسے آفتاب کرتا ہے... انہیں کی خاک میں پوشیدہ ہے وہ چنگاری ��وجود انہیں کا طواف بتاں سے ہے آزاد... یہ تیرے مومن وکافر تمام زناری ��

1..مطلب آزاد بندہ اور حیرت پسند بندہ وہ ہے جس کی چوٹ یا جس کا وار سخت ہوتا ہے اور سیدھا ہو تا ہے نہ کہ وہ شخص جو مقابلے اور جنگ میں ہیرا پھیری چال بازی اور فریب سے کام لیتا ہے
2..آزاد بندوں کی جبلت ازل سے یہ ہے کہ ان میں قلندری، درویشی اور سلطانی ساتھ ساتھ چلتی ہے. وہ درویش ہوتے ہوئے سلطان. اور سلطان ہو تے ہوئے درویش ہوتے ہیں. 3.

یہ آزاد لوگ ہوتے ہیں کہ جن میں سے چنگاری کو لیکر زمانہ سورج بنا دیتا ہے. وہ دیکھنے میں بے سرو سامان اور ناچیز سے ہوتے ہیں لیکن عشق الہی کی حرارت سے ان کی چنگاری آفتاب کی حرارت پیدا کر لیتی ہے. یعنی کچھ سامان ظاہری نہ رکھتے ہیں زمانہ اور اشیائے زمانہ ان کے تابع ہوتی ہیں. 4

یہ مردان خدا وہ ہیں جو اللہ کے سوا کسی کو نا پوجتے ہیں اور نہ کسی کے آگے جھکتے ہیں ورنہ عامی مسلمانوں کو بھی دیکھا ہے اور کافروں کو بھی دیکھا ہے. سب زنار باندھے ہوئے ہیں. بت پرست ہیں. بت ضروری نہیں کہ پتھر کے ہوں، غیراللہ اور بہت کچھ ہے. دنیا ہے فریب ہے، رشوت ہے لوٹ  کھسوٹ ہے، حق مارنا ہے جعلی چیزیں بیچنا ہے. ان سب کے پیچھے لگنا ان کا پجاری بننا ہی تو ہے. لیکن اللہ کے بندے ان سب بتوں کے پھیرے لینے سے آزاد ہو تے ہیں. وہ صرف اللہ کی بندگی اختیار کر تے ہیں اور صرف اسے اپنا پروردگار اور رب تسلیم کرتے ہیں. باقی ہر قسم کے لوگ جنہیں حرص، لالچ اور کشش دنیاوی، اللہ سے دور لے جاتی ہے اور وہ اس کی ربوبیت کے قائل نہیں، اللہ سے غافل ہو تے ہیں.. ماخوذ ضرب کلیم... احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی...

حقوق العباد

������حقوق العباد ������

حضور صل اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں سے کسی کو ایسی حالت میں نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن گردن پر اونٹ لادے ہوئے آرہا ہو کہ اونٹ شور مچائے اور وہ شخص کہے یا رسول اللہ مجھے بچائیے اور میں جواب دوں کہ میرے اختیار میں کچھ نہیں. میں تو پہلے ہی اطلاع دے چکا تھا. میں تم میں سے کسی کو ایسی حالت میں نہ پاؤں کی قیامت کے دن اپنی گردن پر گھوڑا لاد کر لا رہا ہو اور وہ ہنہناتا ہو اور مجھ سے کہے یا رسول اللہ مجھے بچائیے اور میں کہوں میرے اختیار کی کیا بات ہے. میں تو پہلے ہی سنا چکا تھا. میں کسی کو ایسی حالت میں نہ پاؤں کہ وہ گردن پر بکری لادے لارہا ہو جو بول رہی ہو اور وہ کہے یا رسول اللہ مجھے بچائیے اور میں کہوں کہ میں کچھ نہیں کر سکتا میں تجھ کو خدا کا حکم پہنچا چکا تھا. میں تم میں سے کسی کوقیامت میں اس حالت میں نہ پاؤں کہ گردن پر غلام لادے آرہا ہو جو چیخ رہا ہو اور کہے یا رسول اللہ مجھے بچائیے اور میں جواب دوں کہ میرے بس کی کیا بات ہے. میں تو خبر دے چکا تھا. میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ قیامت کے دن کپڑے گردن پر لادرہا ہو وہ ہل رہے ہو ں اور کہے یا رسول اللہ مجھے بچائیے اور میں جواب دوں کہ میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا. میں تو تبلیغ کر چکا تھا. میں تم میں سے کسی کو نہ پاؤں کہ وہ بروز قیامت مال منقولہ گردن پر لئے آرہا ہو اور کہے یا رسول اللہ مجھے بچائیے اور میں کہوں کہ میں تیرے لئے کچھ نہیں کر سکتا. میں تجھ کو تبلیغ احکام کر چکا تھا...(مسلم) یاد رکھئے اس حدیث کا تعلق تمام حقوق العباد سے ہے. بندوں کا حق ادا کر نا اس قدر اہم چیز ہے. اللہ تعالٰی مجھے اور آپ کو اور تمام مسلمانوں کو تو فیق دے کہ ہم ایسی کمائی سے بچیں جس سے بندوں کے حقوق تلف ہوتے ہیں یا ان پر ظلم ہو تا ہے. یا اللہ کی نافرمانی لازم آتی ہو. اللہ ہمیں توبہ کی توفیق دے. مال حرام واپس کرنے کی ہمت دے. صراط مستقیم پر قائم رکھے. اور ہم پر رحم فرمائے آمین

احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی

مرد فرنگ

����مرد فرنگ. انگریز آدمی ����

ہزار بار حکیموں نے اس کو سمجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں

فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں

��مطلب ��اہل عقل و دانش، مفکر اور فلسفی عورت کے مسئلے کو ہزار بار حل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں. کہ یہ کیا ہے، اس کے حقوق کیا ہیں مرد کے مقابلے میں اس کا کیا درجہ ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن کوئی خاطر خواہ حل نہیں مل سکا.

2...اس خرابی میں کہ داناؤں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا عورت کا کوئی قصور نہیں. اس کے شریف ہونے پر تو چاند اور ثریا بھی گواہ ہیں. جس طرح چاند اور تارے پاک اور صاف ہیں اسی طرح عورت بھی پاک و صاف ہے

3...اس خرابی کے ہزار بار سلجھانے پر بھی عورت کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا. اصل قصور نہ عورت کا ہے نہ اہل دانش کا. بلکہ فساد کی جڑ اہل مغرب کا معاشرہ ہے. وہاں مرد اتنا سادا ہے کہ بیچارہ عورت کی ذہنیت کو نہیں پہچان سکا. اگر اسلامی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کو دیکھا جاتا تو یہ حل ہو چکا ہو تا اور مرد اور عورت اپنے اپنے فطری دائروں میں میں اطمینان کی زندگی گزار رہے ہوتے.

��ماخوذ ضرب کلیم ��

��احقر شمیم ��

اس قوم کو شمشیر کی

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی.. ہو جس کے جوانوں کی کی خودی صورت فولاد.. ناچیز جہاں مہ و پرویں ترے آگے.. وہ عالم مجبور ہے تو عالم آزاد.. موجوں کی تپش کیا ہے فقط ذوق طلب ہے.. پنہاں جو صدف میں میں ہے وہ دولت ہے خدا داد.. شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا.. پردم ہے اگر تو تو نہیں خطرہ افتاد.. ....... مطلب.... جس قوم کے جوان اپنی لوہے جیسی مضبوط خودی سے آشنا ہوں اور اس پر مضبوطی سے قائم بھی ہوں. یعنی وہ اپنی اور اپنی قوتوں اور صلاحیتوں سے واقف ہوں. اس قوم کو پھر تلوار فوجی سازو سامان کی ضرورت نہیں رہتی. اس قوم کے لئے ان جوانوں کا جذبہ ایمان اور جذبہ حب الوطنی آلات حرب وضرب سے زیادہ کام کرتا ہے.2.... اے انسان تو اپنے ارادے. اپنی فکر اپنے عمل میں آزاد ہے جبکہ یہ آسمان پر چمکنے والے تارے. چاند وغیرہ آزادی کے ان اوصاف سے محروم ہیں. وہ مجبور محض ہیں اس لئے تو ان سے افضل ہے. یہ تیری بھول ہے کہ تو انکو اپنے آپ سے بلند اور چمکدار سمجھتا ہے وہ تو تیرے شکار ہیں. تو جب چاہے انہیں تسخیر کر سکتا ہے تو ان سب پر فائق ہے... 3...دریا یا سمندر میں موجوں کی تڑپ کو دیکھو وہ کسی شئ کی طلب کے لیے تڑپ رہی ہوتی ہیں. اور اس تڑپ اور طلب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قدرت اس میں موجود سیپیوں کے اندر موتی چھپا کر رکھ دیتی ہے اور انہیں مالا مال کر دیتی ہے. اصل چیز طلب کی تڑپ ہے. یہ تڑپ ہوگی تو مقاصد بلند بھی حاصل ہونگے... 4..باقی جانور تھوڑا بہت اڑنے کے بعد تھک جاتے ہیں اور کہیں کہیں دم لینے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں لیکن باز کو دیکھو وہ گھنٹوں اڑتا رہتا ہے اس کا دم ایسا پکا ہے وہ تھکتا نہیں. اگر تو بھی باز کی طرح پختہ دم ہو تو تجھے بھی اپنی زندگی کی پرواز میں گرنے کا خطرہ نہیں ہے. یہ ہے وہ کھلا ہوا بھید جو علامہ اقبال نے اس نظم میں بیان کر نا چا ہا ہے..... ماخوذ ضرب کلیم.... احقر شمیم

تقدیر

������تقدیر ������

نااہل کو حاصل ہے کبھی قوت و جبروت ��

ہے خوار زمانے میں کبھی جو ہر ذاتی ��

شاید کوئی منطق ہو نہاں اس کے عمل میں ��

تقدیر نہیں تابع منطق نظر آتی ��

ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو ��

تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی ��

ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی ��

براں صفت تیغ دو پیکر نظر اس کی ������

مطلب :عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو نالائق ہوتے ہیں. اور ان میں کوئی کوئی ذاتی صلاحیت نہیں ہوتی طاقت عظمت اور ہیبت کے مالک بن جاتے ہیں. اور حکومت کے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں. اس کے برعکس یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ ذاتی قابلیت رکھتے ہیں اور اللہ نے جنہیں ذاتی صلاحیتیں عطا کی ہو ئی ہوتی ہیں وہ زمانے میں ذلیل و خوار دکھائی دیتے ہیں. یہ تقدیر کے متعلق ایک عام نقطہ نظر ہے جو علامہ نے اس شعر میں پیش کیا ہے
2....نا اہل کے کامیاب اور اہل کے ناکام ہونے کے پیچھے شاید کوئی علم معقول یا دلیل کی بات پوشیدہ ہو لیکن میرے خیال میں تقدیر جو ہے وہ منطق.. علم معقول.. کے زیر فرمان نظر نہیں آتی َ. اس کا معاملہ ہی اور ہے

3...اقبال نے دوسرے شعر میں یہ بات بیان کی ہے کہ شاید اہل اور نا اہل کی تقدیر میں کوئی منطق چھپی ہوئی ہو لیکن اس تیسرے شعر میں کہتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جو سب کو معلوم ہے اور یہ حقیقت قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ سے صاف ظاہر ہے. جو قومیں ہمت سے کام لیتی ہیں اور با عمل ہوتی ہیں وہ قوت اور جبروت حاصل کر لیتی ہیں اور جو قومیں عمل سے محروم ہو تی ہیں وہ ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں. یہ بات اقوام کی تاریخ سے بالکل عیاں ہے.

4...علامہ اقبال نے اس شعر میں تقدیر کا صحیح مفہوم بتاتے ہوئے کہا ہے کہ تقدیر ہر لمحہ قوموں کے اعمال پر نظر رکھتی ہے. تقدیر دودھاری تلوار کی مانند ہے جو اہل عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے اور بے عملوں کو ناکامی کا منہ دکھاتی ہے. اقبال کے نزدیک تقدیر کا وہ مفہوم جو عوام کے ذہن میں ہے کہ نا اہل پھلتے پھولتے ہیں اور اہل خوار نظر آتے ہیں بلکل غلط ہے. تقدیر بندوں کے اپنے اعمال کے نتیجے میں بنتی ہے.. ❄ماخوذ ضرب کلیم❄

احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی ������

عورت کی حفاظت

������عورت کی حفاظت ������

اک زندہ حقیقت مرے سینے میں ہے مستور ��
کیا سمجھے گا وہ جس کی رگوں میں ہے لہو سرد��

نے پردہ، نہ تعلیم، نئ ہو کہ پرانی ��
نسوانیت زن کا نگہبان ہے فقط مرد��

جس قوم نے اس زندہ حقیقت کو نہ پایا ��

اس قوم کا خورشید بہت جلد ہوا زرد ����

����مطلب ����1..میرے سینے میں ایک زندہ حقیقت چھپی ہوئی ہے لیکن اسے وہی سمجھ سکتا ہے جس کی رگوں میں خون سرد نہ ہوا ہو یعنی جس کے جذبات مردہ نہ ہو چکے ہیں. وہ حقیقت کیا ہے.شاعر نے اگلے شعر میں بیان کیا ہے..

2...وہ زندہ حقیقت جس کا شاعر نے پہلے شعر میں ذکر کیا ہے اور جس کو صرف زندہ جذبات والے لوگ سمجھ سکتے ہیں. وہ یہ ہے کہ عورت کے عورت پن کا محافظ اگر کوئی ہو سکتا ہے تو وہ صرف مرد ہے. اگر مرد اس کی نگہبانی کے جذبے سے عاری ہو تو پھر نہ پردہ اور نہ تعلیم، چاہے وہ نئ ہو یا پرانی، عورت کے عورت پن کو قائم نہیں رکھ سکتی َ. دوسری صورت میں عورت اپنے عورت پن کے حلقہ سے نکل کر عورت نہیں رہے گی کچھ اور بن جائے گی.

3...شاعر کہتا ہے وہ زندہ حقیقت جو میرے سینے میں چھپی ہوئی تھی اور جس کو میں نے مذکورہ بالا شعر میں صاف بیان کر دیا ہے اس زندہ حقیقت کو نسوانیت زن کا اگر کوئی نگہبان ہے تو صرف مرد ہے. جو قوم اس زندہ حقیقت کو نہیں پا سکے گی تو سمجھ لینا کہ اس قوم کا سورج بہت جلد غروب ہونے کے قریب ہے جن قوموں نے آزادی نسواں کو مادر پدر آزادی سمجھ کر قبول کر لیا ہے. انہوں نے اصل میں فطرت سے بغاوت کی ہے. اور فطرت سے فغاوت کرنے والا ضرور سزا پاتا ہے������
ماخوذ ضرب کلیم ��
احقر شمیم ��

مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی ������

دارالعلوم حسینیہ بوریولی 2015 کے تین حفاظ

��الحمدللہ آج بروز اتوار بتاریخ 31. 5. 2015��

کو مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی کے ایک بہت ہی ہو نہار طالب علم محمد ابراہیم بن انور. پورا قرآن مجید ایک بیٹھک میں سنا رہے ہیں محمد ابراہیم سلمہ نے نورانی قاعدہ سے اسی مدرسے میں ابتدا کی تھی اور آج حفظ کی ان کی انتہا پر ہو رہی ہے. اس سے پہلے عبدالصمد بن نعیم جوگیشوری. اور محمد یاسین بن مصطفٰی بھائیکلہ نے سنا چکے ہیں.اس میں جہاں پر ماں باپ قابل مبارک باد ہیں. وہیں پر بہت بہت مبارک باد ہیں وہ مشفق و مربی اساتذہ کرام جنہوں نے رات دن ایک کرکے مہ و جبین کی طرح بچوں کو چمکایا. حفظ کے استاد حافظ عبد الرب صاحب بستوی جو آج ابراہیم سلمہ کا قرآن مجید سماعت کر رہے ہیں. ان کے علاوہ مولانا فیضان بستوی. قاری کلیم گونڈوی. حافظ سعید بستوی. یہ اساتذہ کرام کی انتھک کوششوں اور محنتوں کا ثمرہ ہے. ابھی مدرسہ اور پورا محلہ ٹین کے جھوپڑو پر مشتمل ہے. لائٹ اور پانی کی سہولت بھی نہیں ہے لیکن میں اساتذہ کی قربانیوں اور مشقتوں اور دینی جذبوں کی کیا تعریف کروں. ایسے ایسے بچے جو کسی کام کے نہیں سمجھے جاتے تھے دربدر بھٹکتے تھے اساتذہ نے ان کو گلے سے لگایا اور اپنے علم و حکمت سے اور تربیت سے پتھر کو ہیرا بنا دیا.. مدرسہ میں مشکل سے پچاس بچوں کی رہائش کا انتظام ہے. لیکن پوری سال 70بچے دارلاقامہ میں رہے. آج کے دور میں جفاکشی اختیار کر نا کسی سے نہیں ہوتا تو بچے کہاں برداشت کریں گے. لیکن تعلیم عمدہ ہو اور اساتذہ کی محبت بھی میسر ہو جائے تو بچے تکلیف بھی گوارہ کر لیتے ہیں.. اس ترقی میں حضرت اقدس شاہ مولانا منیر احمد صاحب دامت برکاتہم. اور مولانا مولانا تصدق حسین صاحب. اور مولانا ابراہیم صاحب. ان حضرات کی دعائیں اور محنتیں بھی ہیں. اور مخیر ین حضرات کی حلال روزی بھی شامل ہے... اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں دعا گو ہوں کہ اللہ تعالٰی اساتذہ کرام منتظمین مخیرین حضرات کو اپنے شایان شان اجر عظیم عطا فرمائے آمین اور ان بچوں کو ہمارے لئے صدقہ جاریہ اور نجات کا ذریعہ بنائے آمین������

احقر شمیم مدرسہ ھذا

مولانا علی میاں کا پیغام غیور مسلمانوں کے نام

��حضرت مولانا سید ابو الحسن علی ندوی ��
��کا پیغام غیور مسلمانوں کے نام ��

تلک، گھوڑا جوڑا اور مروج جہیز کو مولانا کی مصلحانہ طبیعت،، وبائے عام،، اور زمانے حال کا فتنہ،، قرار دیتی ہے اور وہ کہنا چاہتے ہیں کہ،، خارجی محاذ،، پر مضبوطی دکھانے کے ساتھ داخلی محاذ کو بھی تمام کمزوریوں سے پاک رہنا چاہیے. ایک اصلاحی رسالہ کے پیش لفظ میں وہ تحریر فرماتے ہیں.

لڑکی والوں سے کسی رقم یا خاص چیز کا مطالبہ یا من مانی فرمائشیں اور مالی و اقتصادی منافع کے حصول کی شرط جس کو بعض علاقوں میں تلک، بعض مقامات پر،، گھوڑا جوڑا،، بعض جگہ جہیز کی معروف و متداول اصطلاح سے تعبیر کیا جاتا ہے اور جو ہندوستان میں کچھ عرصہ سے برادران وطن؛ ہندو معاشرہ؛ کی تقلید میں یا اس کے ساتھ رہنے سہنے یا مال و دولت کی اس بڑھی ہوئی حرص یا لالچ کی وجہ سے جو موجودہ تہذیب تعلیم دینی کمزوری اور حب دنیا نے مسلمانوں میں پیدا کر دی ہے، وقت کی وہ وبائے عام اور زمانے حال کا وہ فتنہ اور ابتلا ہے جس نے اس مسلم معاشرہ کے لیے اس ماحول میں،، جس میں دینی تعلیم وتر بیت کی کمی ہے،، اس شرعی وفطری شریفانہ وتمدنی ضرورت کی تکمیل کو پہاڑ کاٹ کر جوئے شیر لانے سے کم دشوار نہیں بنا دیا ہے.
ضرورت ہے کہ اصلاحی و تربیتی کام کرنے والے اور علماء ائمہ و خطباء اس وبائے عام اور زمانہ حال کے فتنہ کو اپنا موضوع تقریرو تحریر بنائیں اور مجالس و تقریبات میں اس کو اپنے اپنے انداز میں پیش کریں نو جوان اس پر عمل کرنے کا معاہدہ کرین اور اپنے دوستوں اور عزیزوں سے عہدو وعدہ لیں کہ وہ اس رسم قبیح سے نہ صرف خود احتراز کریں گے بلکہ دوسروں کو بھی اس سے متنفر و مجتنب بنانے کی کوشش کریں گے اگر ضرورت ہو تو اس کے خلاف دستخطی مہم اور تحریک چلائیں گے. یہاں تک کہ اگر خود لڑکی کے سرپرستوں اور اولیاء کی طرف سے اس کی پیشکش ہو تب بھی اس کو قبول نہ کریں گے یہ دین و اخلاق اور اصلاح و تبلیغ کا ایک اہم ترین تقاضا اور مسلم معاشرہ کی حفاظت کا اہم ترین مطالبہ ہے. اس میں کوتاہی وغفلت بڑے خطرات کا پیش خیمہ اور خدا رسول کی ناراضگی وناپسندیدگی کا ذریعہ ہے،،

واتتقو ا فتنت لا تصیبن الذین ظلمو ا منکم خاصہ واعلمو ا ان اللہ شدید العقاب؛؛ الانفال؛؛.. اور اس فتنہ سے ڈرو جو خصوصیت کے ساتھ انہیں لوگوں پر واقع نہ ہو گا جو تم میں گنہگار ہیں اور جان رکھو کہ خدا سخت عذاب دینے والا ہے.. اللہ تعالٰی ہم سب کو جہیز اور بارات اور شادی میں جو بھی خرافات ہوتے ہیں اس سے بچنے کے توفیق عطا فرمائے آمین

��ماخوذ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی. افکار و آثار ��

��احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی ��

مومن دنیا میں

����مومن،، دنیا میں،، ����

ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم ��
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن ��

افلاک سے ہے اس کی حریفانہ کشاکش ��
خاکی ہے مگر خاک سے آزاد ہے مومن ��

جچتے نہیں کنجکش و حمام اس کی نظر میں ��
جبریل و اسرافیل کا صیاد ہے مومن ��

����جنت میں ����

کہتے ہیں فرشتے کی دل آویز ہے مومن ��
حوروں کو شکایت ہے کم آمیز ہے مومن ��

مطلب ��1..مومن کی دنیا میں پہچان یہ ہے کہ جب وہ اپنے مسلمان بھائیوں،مومن دوستوں میں ہوتا ہے تو ان کے ساتھ یوں رہتا ہے اور ان سے یوں پیش آتا ہے جیسا کہ ریشم ہو جو ملائم و نرم ہوتا ہے. نرمی ملائمت، اخوت، رواداری، ہمدردی اس کا شیوہ ہوتا ہے. لیکن جب دشمن دین سے مقابلہ پڑجائے. جب سچ اور جھوٹ. حق اور باطل اور کفر و اسلام میں معرکہ ہو جائے تو یہی ریشم کی طرح ملائم مومن لوہے کی طرح سخت ہو جاتا ہے اور جب تک باطل کو جھکا نہیں لیتا ضرب کاری سے کام لیتا رہتا ہے..

2..مومن ہر وقت آسمانوں کے مد مقابل اور ان کا دشمن بنا رہتا ہے. ایک تو اس لئے کہ آسمانوں سے کوئی بلا آئے وہ انکا مقابلہ کرتا ہے ان کے آگے جھکتا نہیں دوسرے یہ کہ وہ ان افلاک سے دو بدو ہو کر ان سے آگے،، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں کے مصداق،، نکل جانا چاہتا ہے. زمین پر ہوتے ہوئے اپنا تعلق آنسوئے افلاک عرش معلی سے قائم رکھنا چاہتا ہے اب یہ بات کسے معلوم نہیں کہ زمان و مکان سے آگے آنسوئے افلاک سے تعلق پیدا کرنا تب ہی ہو سکتا ہے جب مومن بھی نوری ہو کیونکہ نوری جہاں کا تعلق نور سے ہی ہو سکتا ہے اس لئے مومن جو بشریت کے لحاظ سے خاکی،،مٹی کا بنا ہوا ہے،، ہوتا ہے لیکن حقیقت اس کی نورانی ہوتی ہے. وہ خاکی ہوتا ہوا خاک سے آزاد ہو تا. بندہ ہوتے ہوئے مومن صفات ہوتا ہے نوری نہاد ہوتا ہے..

3..مومن چڑیوں اور کبوتروں کا شکار نہیں کھیلتا. بلکہ وہ جبریل و اسرافیل جیسے فرشتوں کو اپنی گرفت میں لاتا ہے. یہاں کوئی گستاخی کا پہلو نہیں ہے کیونکہ علامہ نے نے ان فرشتوں کو بطور استعارہ استعمال کیا ہے. مراد یہ ہے کہ مومن کے مقاصد، بہت بلند، اعلٰی اور ارفع وپاک ہوتے ہیں. معمولی مقاصد تو اس کی نظر کو پسند ہی نہیں آتے...

4...فرشتے یہ کہتے ہیں کہ مومن ایک دل آویز دلکو لبھانے والی شخصیت ہے. حوریں یہ کہتی ہیں کہ دوسروں کے مقابلے میں مومن ہم سے کم ملتا ہے مراد یہ ہے کہ مومن ایک انوکھی اور عجیب شئ ہے. سب جنت میں حوروں کے لئے اور جنت کی دوسری پرکشش چیزوں کے لئے آتے ہیں اور مومن ہے کہ ان کی طرف دھیان بھی نہیں کر تا. اس کی تو صرف ایک ہی خواہش ہوتی ہے کہ دیدار ذات ہو جائے. وہ اپنے رب سے ملاقاتی ہونا چاہتا. حوروں اور جنت کی اسے کوئی پرواہ نہیں..
��اللہ رب العزت ہم سب کو مومن بنائے ��
��اور دنیا سے مومن ہی اٹھائے. آمین ��

��ماخوذ ضرب کلیم ��

��احقر شمیم ��

مرد فرنگ

����مرد فرنگ. انگریز آدمی ����

ہزار بار حکیموں نے اس کو سمجھایا
مگر یہ مسئلہ زن رہا وہیں کا وہیں

قصور زن کا نہیں ہے کچھ اس خرابی میں
گواہ اس کی شرافت پہ ہیں مہ و پرویں

فساد کا ہے فرنگی معاشرت میں ظہور
کہ مرد سادہ ہے بیچارہ زن شناس نہیں

��مطلب ��اہل عقل و دانش، مفکر اور فلسفی عورت کے مسئلے کو ہزار بار حل کرنے کی کوشش کر چکے ہیں. کہ یہ کیا ہے، اس کے حقوق کیا ہیں مرد کے مقابلے میں اس کا کیا درجہ ہے وغیرہ وغیرہ، لیکن کوئی خاطر خواہ حل نہیں مل سکا.

2...اس خرابی میں کہ داناؤں سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو سکا عورت کا کوئی قصور نہیں. اس کے شریف ہونے پر تو چاند اور ثریا بھی گواہ ہیں. جس طرح چاند اور تارے پاک اور صاف ہیں اسی طرح عورت بھی پاک و صاف ہے

3...اس خرابی کے ہزار بار سلجھانے پر بھی عورت کا مسئلہ حل نہیں ہو سکا. اصل قصور نہ عورت کا ہے نہ اہل دانش کا. بلکہ فساد کی جڑ اہل مغرب کا معاشرہ ہے. وہاں مرد اتنا سادا ہے کہ بیچارہ عورت کی ذہنیت کو نہیں پہچان سکا. اگر اسلامی نقطہ نظر سے اس مسئلہ کو دیکھا جاتا تو یہ حل ہو چکا ہو تا اور مرد اور عورت اپنے اپنے فطری دائروں میں میں اطمینان کی زندگی گزار رہے ہوتے.

��ماخوذ ضرب کلیم ��

��احقر شمیم ��

تکبر

��تکبر ��

حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم نے نے دوزخیوں اور اور جنتیوں کی ایک عجیب نشانی بتلائی ہے جس سے ہر شخص اپنے متعلق آخرت میں اپنے مرتبہ اور مقام کا پتہ چلا سکتا ہے. آپ نے ارشاد فرمایا کہ ہر سخت عادت والا. اور زیادہ بکنے والا اور متکبر، مال جمع کرنے والا. اہل دوزخ میں سے ہے. اور کمزور و مغلوب لوگ اہل جنت ہیں،، احیاء،، نیز آپ نے ارشاد فرمایا کہ یقینا بروز قیامت تم میں سے زیادہ ہم کو محبوب اور ہمارے قریب وہ ہوگا جو سب سے زیادہ بہتر اخلاق والا ہو. اور تم میں سب سے زیادہ ہماری نظر میں مبغوض اور ہم سے دور، حق کے خلاف بہ کثرت کام کرنے والے لوگوں کا مزاق اڑانے والے اور اپنی بڑائی جتانے والے ہونگے،، احیا،،

نیز آپ نے فرمایا کہ اللہ تعالٰی ارشاد فرماتے ہیں بڑائی میری چادر اور عظمت میری ازار ہے. پس جو شخص ان کو مجھ سے چھینے گا،، یعنی خود ہی بڑااور متکبر بننا چاہے گا،، میں اسے جہنم میں ڈال دونگا اور،، بالکل،، پرواہ نہ کرو نگا،، جمع الفوائد،،

اور حضور صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا جس شخص کے قلب میں رائی کے دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہ ہو گا،، جمع،، کیونکہ جنت کے دروازے اخلاق حسنہ پر ہی قائم کئے جائیں گے. اور تکبر وغرور آدمی کو اچھے اخلاق برتنے سے روکتے ہیں. متکبر کبھی اخلاق حسنہ مثلا تواضع وعاجزی وغیرہ سے متصف نہیں ہو سکتا تو گویا تکبر تمام بد اخلاقیوں کی جڑ ہے جس کا پھل جنت کی نعمتوں سے محرومی ہونا ہی چاہیے اور متکبر دینی نعمتوں سے بھی محروم رہتا ہے. اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ میں اپنی آیات، قرآن، سے ان لوگوں کو پھیر دونگا جو زمین میں بیجا تکبر کر تے ہیں.،، اس کا مطلب یہ بھی بتایا گیا ہے کہ ان کے دلوں میں سے قرآن کا فہم اور ا س کی سمجھ اٹھا لوں گا. اللہ اکبر کتنی بڑی محرومی ہے

متکبرین کی تین قسمیں ہیں. ایک حق تعالٰی اور احکم الحاکمین کے ساتھ تکبر برتنے والے یعنی اس کی عبادت اور اس کے احکام کو تسلیم کرنے سے انکار کر نے والے. یہ گروہ کفار کا ہے اوراس کی سزا ابدی عذاب جہنم ہے.. دوسری قسم کے وہ لوگ ہیں جو رسولوں کے احکامات سے تکبر کا برتاؤ کرتے ہیں اور ان کو اپنے جیسا بشر سمجھ کر انکے احکامات کو تسلیم نہیں کرتے بلکہ رسولوں کی سنت. اور طریقہ کا مزاق اڑاتے ہیں. یہ بھی کفر ہے اور اس کی سزا دائمی جہنم ہے. نماز. روزہ. اور دیانت داری. امانت داری اور داڑھی وغیرہ کا مزاق اڑانے والے سوچیں کہ وہ کس متکبرین میں داخل ہیں.. تیسری قسم تکبر کی یہ ہے کہ اللہ اور اللہ کے رسولوں سے نہیں بلکہ اللہ کی مخلوق کے ساتھ تکبر کا برتاؤ کرتے ہیں کہ دوسروں کو کم درجہ کا اور اپنے آپ کو بڑا اور بڑی پوزیشن والا سمجھتے ہیں اس قسم کا تکبر گناہ کبیرہ اور حرام ہے اور یہی  تکبر کی وہ قسم ہے جس کے متعلق مذکورہ بالا احادیث آپ سن چکے ہیں

��اللہ تعالٰی ہم سب کو تکبر جیسے برے فعل سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ��

��ماخوذ خطبات موعظت ��

��احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی ��