Wednesday 12 October 2016

تبلیغی جماعت پر اعتراض کا جواب

[24/08 13:41] shamim ansari: ہندوستان کے مشہور ادارے دارالعلوم دیوبند اور دارالعلوم ندوہ لکھنؤ

میں تبلیغی جماعت پر اعتراض کرنے والوں سے یہ سوال کرتا ہوں کہ قائد جمیعت علماء ہند جو کہ دارالعلوم دیوبند کی عظیم شخصیت ہیں یہ تبلیغی جماعت کے خلاف کتنی بار بیان دیئے ہیں جب کہ کاروان اہل حق علمائے دیوبند پر آئے دن اعتراض کئے جاتے اب یا تو تم یہ کہو کہ ہم حضرت والا سے زیادہ فہم رکھتے ہیں یا تبلیغی جماعت پر اعتراض بند کرو اور غلو کے نام پر اعتراض کرتے ہو یہ تم سے زیادہ حضرت والا کو معلوم ہے اور ہمارے قائد شیر والا جگر رکھتے ہیں تم یہ بھی نہیں سوچ سکتے کہ وہ کسی سے خوف کھاتے ہیں بلکہ ہمارے قائد اس بات کو محسوس کر رہے ہیں کہ آج جو جو تبلیغی جماعت سے فیض پہنچ رہا ہے وہ اور کسی اصلاحی جماعت سے نہیں پہنچ رہا ہے اسلئے ہمارے قائد کا تعاون ہی رہتا ہے تبلیغی جماعت کے ساتھ.

اور معترض یہ تو مرغی کے چوزے اور کنوئیں کے میڈک لوگ ہیں جو کچھ نہیں جانتے اور تبلیغی جماعت کے خلاف پوسٹ کرتے رہتے ہیں اور چوں چوں. ٹر ٹر ٹر کرتے رہتے ہیں پیالے میں جو ہوتا ہے وہی چھلکتا ہے دودھ ہے تو دودھ. پیشاب ہے تو پیشاب

اور دارالعلوم ندوہ لکھنؤ کے مولانا ابوالحسن علی ندوی رحمۃاللہ علیہ ان کی بہت قربانیاں ہیں تبلیغی جماعت کے لئے معترضین کبھی ان کی کتابوں کا مطالعہ کریں چودہ طبق روشن ہو جائیں گے اور جب مولانا کی بے شمار قربانیاں اور جدوجہد ہے تبلیغی جماعت کے لئے تو آگر آج یہ غلو کر رہے ہیں تو سب سے زیادہ چوٹ مولانا رابع صاحب دامت برکاتہم کو لگنی چاہیے اور ان کی تحریر یا ان کا بیان آنا چاہئے جبکہ یہ حضرت آج تک ایک لفظ بھی تبلیغی جماعت کے خلاف نہیں کہے

تبلیغی جماعت کے مخالف یا غلو غلو غلو کے رٹہ مارنے والے کیا ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ ہم مرغی کے چوزے حضرت مولانا رابع صاحب دامت برکاتہم اور حضرت مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم سے زیادہ سمجھ رکھتے؟
[24/08 13:43] shamim ansari: مناظر اسلام حضرت مولانا  گھمن صاحب نے تین دن نکلنے کو قرآن حدیث سے ثابت کیا ہے ان کو محبت ہے تبلیغی جماعت سے جبھی تو

مولانا یوسف لدھیانوی رحمۃ اللہ علیہ آپ کے مسائل ان کا حل میں ایک صاحب کو جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ آپ نے سوال کیا ہے کہ تبلیغی جماعت کے ساتھی بنا بتائے جماعت میں نکل جاتے ہیں آپ نے جواب دیا کہ جب لوگ تین سال دو سال کے لئے سعودی عرب جاتے ہیں تو آپ کو فکر نہیں ہوتی. میری رائے ہے آپ بھی تبلیغ میں نکل کر دیکھو.

مولانا عبد الشکور صاحب رحمۃاللہ علیہ ان کی خطبات دین پوری میں تبلیغی جماعت رائے ونڈ اور دوسرے واقعہ کا ذکر کرتے ہوئے اور حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ کا تذکرہ کرتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہیں

مولانا ضیاء الرحمن صاحب فاروقی  رحمۃ اللہ علیہ اپنے بیان میں تبلیغی جماعت کی خوبیوں کو بیان کرتے ہوئے نظر آتے ہیں

کتنے کے نام فہرست میں لائیں جنہوں نے تبلیغی جماعت سے اپنی محبت کا اظہار کیا ہے اور جو موجودہ دور کے ہیں رہبر ہیں وہ کر رہے ہیں

ہمارے قائد مولانا ارشد مدنی صاحب دامت برکاتہم کا ایک بھی بیان نہیں آیا کہ تبلیغی جماعت والے غلو کر رہے ہیں میں بھی جمیعت سے تعلق رکھتا ہوں اور وقت بھی دیتا ہوں جو لوگ غلو غلو کے رٹے لگا رہے ہیں ہم ان کی بات سے اتفاق نہیں کریں گے ہم تو عاشق ہیں قائد جمیعت علماء ہند کے اور ان کی باتوں کو مانیں گے

تبلیغی جماعت کی برکت سے عمل کا ماحول پیدا ہو گیا

🌿جماعت تبلیغ کی برکت سے🌴

🍃 عمل کا ماحول پیدا ہو گیا 🌱

ہمارے حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ ان کے قلب پر اللہ نے تبلیغ کو ایک فن کی صورت میں القا فرمایا. تبلیغ ہو رہی تھی علماء دعوتیں بھی دے رہے تھے.

مولانا کے قلب پر اللہ نے الہام فرمایا اور انہوں نے ایک طریقہ مقرر کیا. جو اس زمانے میں مؤثر ہو اور اس میں جماعتی رنگ ہوکہ ایک ایک فرد نہ جائے. جماعتیں جائیں.
لوگوں کو گھروں سے نکال کر لائیں. اور جماعت بناؤ. جماعتی طور پر جب آپ گشت کریں گے اور جماعت ایک زبان ہوکر ایک ہی بات کہے گی. قدرتی طور پر اس کا اثر پڑے گا.

کوئی معاند ہو. کوئی دشمن ہو نہ مانے. دنیا میں ہر زمانے میں معاند اور دشمن رہے ہیں. مگر ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا. عقل والوں کا اعتبار ہے. عقل مندوں کے سامنے جماعتی حیثیت کبھی نظر انداز ہونے کے قابل نہیں ہوتی. تو مولانا کے قلب پر اللہ نے اس طریقے کو القاء فرمایا.

جب انسان جماعت کے ساتھ چل پڑتا ہے. تو گھر میں عمل سے روکنے والی چیز گھر کی آسائشیں اور راحتیں ہی تو ہوتی ہیں. گھر میں آرام کرتا ہے تو کبھی نماز چھوٹ گئی. کبھی کوئی عمل چھوٹ گیا. لیکن جب گھر سے نکل گیا تو سامان راحت ہی منقطع ہو گیا. اب سوائے اللہ کے نام کے اور کوئی کام باقی نہیں رہ گیا کہ خواہ مخواہ آدمی ہی کا نام لے. گھر سے نکل کر جب مسجد میں آگیا. اب اللہ کا نام نہیں لے گا تو اور کیا کرے گا؟ گویا عمل کرنے اور اللہ کا نام لینے پر مجبور کر دیا. تو فقط یہی نہیں کہ دعوت الی اللہ کی جماعتی صورت قائم کی بلکہ ایک عملی صورت بھی قائم کردی کہ ہر شخص عبادت پر مجبور ہو.

اس واسطے ماحول کا اثر پڑتا ہے. ماحول جب اللہ والوں کا ہوتا ہے. تو آدمی خواہ مخواہ اللہ کا نام لینے پر مجبور ہوتا ہے. حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ شادی کے سلسلہ میں شرکت کیلئے تھانہ بھون گئے تھے اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ تھانہ بھون میں موجود تھے. مولانا گنگوہی حاضر ہوئے ملاقات ہوئی. حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ نے مولانا گنگوہی کو فراست باطنی سے پہچان لیا. کہ اس شخص کے قلب کے اندر کوئی جوہر موجود ہے. خود فرمایا کہ کسی سے مرید ہو؟ انہوں نے کہا نہیں. فرمایا مجھ سے ہی ہوجاؤ. یعنی کس تیقّن سے فرمارہے ہیں کہ مجھ سے ہی مرید ہو جاؤ.

انہوں نے کہا کہ مرید ہونے کے لئے میں آیا نہیں. میں تو شادی کے سلسلہ میں شرکت کیلئے آیا ہوں. فرمایا ان دونوں میں کوئی تضاد تھوڑا ہی ہے. ٹھیک ہے شادی میں شرکت کے لئے آئے تھے. اب مرید ہو جاؤ. انہوں نے کہا میں مرید ہو جاؤں گا تو آپ کہیں گے یہاں رکو اور اللہ اللہ کرو. یہ میرے لئے بڑا مشکل ہے. میں بچوں کو پالوں گا یا یہاں بیٹھ کر ذکر اللہ میں مشغول رہوں گا. فرمایا یہ تو ہم نہیں کہتے کہ تم یہاں ٹھہرو. اب حضرت حاجی صاحب رحمۃاللہ علیہ بار بار فرما رہے ہیں کہ تم بیعت ہو جاؤ اور مولانا گنگوہی بار بار انکار کر رہے ہیں. لیکن با الآخر بیعت ہوگئے.

اس کے بعد فرمایا کہ بس ایک چالیس دن میرے پاس ٹھہر جاؤ. عرض کیا. اسی لئے میں بیعت نہیں ہوتا تھا کہ میں نہیں ٹھہر سکتا. فرمایا چلو بیس دن ٹھہر جاؤ. انہوں نے کہا کہ میرے پاس بیس دن بھی نہیں ہیں. فرمایا دس دن ہی ٹھہر جاؤ. ہوتے ہوتے آخر تین دن پر بات آئی کہ میں تین دن ٹھہر جاؤں گا

مولانا گنگوہی آکر تین دن کے لئے خانقاہ میں مقیم ہو ئے. رات کو جب تین بجے کسی نے تہجد پڑھا. کسی نے ذکر اللہ کیا. اب پڑے پڑے شرم آئی کہ سارے لوگ تو اللہ اللہ کر رہے ہیں اور میں پڑا سوتا ہوں. تو خود بھی اٹھ کر وضو کیا اور چار رکعت پڑھیں. اگلے دن ارادہ کیا کہ اب میں نہیں پڑھوں گا. چاہے کوئی اٹھے نہ اٹھے. تو سو گئے. جب رات کے تین بجے لوگ اٹھے. تو ارادہ کیا میں نہیں اٹھوں گا مگر ماحول سے مجبور تھے. اٹھنا پڑا. تو کچھ تہجد پڑھا اور اللہ اللہ بھی کی. جب اسی طرح تین دن ہوگئے اور قلب پر اس کا اثر نمایاں ہوا. تو حضرت حاجی صاحب رحمۃاللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت اگر آپ اجازت دیں تو کچھ اور ٹھہر جاؤں.؟ فرمایا ہم نے تو ٹھہرنے کو نہیں کہا تھا. تمہاری مرضی ہے. پھر دس دن ٹھہرنے کا ارادہ کیا. پھر بیس دن. پھر یہ معلوم ہوا کہ چالیس دن یا کتنے دن وہاں ٹھہرے. لیکن بہرحال خلافت لے کر وہاں سے واپس ہوئے.

تو مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ نے جہاں ایک جماعتی رنگ بنایا. وہاں ایک ماحول بھی تیار کیا. اس ماحول کے اثر سے آدمی مجبور ہو گا کہ آدمی ذکراللہ کرے.

🌿ماخوذ خطبات حکیم الاسلام جلد چہارم 🌱

🌿احقر محمد شمیم
مدرسہ دارالعلوم حسینیہ
بوریولی ممبئی 🌷

رب کی بندوں سے محبت کی انتہا اور بندوں کی غلط فہمی

🍃رب کی بندوں سے محبت کی انتہا 🍃

🌿اور بندوں کی غلط فہمی 🌿

اللہ رب العزت اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ جو رب کی نہیں مانتے اور رب کے ساتھ شرک کرتے ہیں. رب العالمین انہیں بھی پالتا ہے یہ اس کے محبت کی انتہا ہے.

مدنی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا. الخلق عیال اللہ.. مخلوق اللہ کا کنبہ ہے.

فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ.. لہٰذا اللہ تعالٰی کو اپنے بندوں میں سے اچھا وہ لگتا ہے. جو اس کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے والا ہو. اللہ کی رضا کے لئے اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرنا یہ اعمال میں سے بہترین عمل ہے.

مدنی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا احب الناس الی اللہ انفعھم للناس.. اللہ رب العزت کو اپنے بندوں میں سب سے زیادہ وہ پسند ہے جو اس کے بندوں کو سب سے زیادہ نفع پہچانے والا ہو.

جب اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے تو میرا کوئی حق نہیں بنتا کہ میں اللہ کے بندوں سے عناد رکھوں. یہ عناد کے جراثیم کہاں سے انسان کے دلو دماغ میں چھا جاتے ہیں اور اس کے سوچنے کی قوت سلب ہو جاتی ہے.
دراصل بات ایسی ہے کہ انسان کبھی معاشرے اور ماحول کا ستایا ہوا ہوتا ہے اور اس میں اتنی طاقت و قوت نہیں ہوتی ہے کہ معاشرے کو تبدیل کر سکے اور نمونہ پیش کر سکے تو الفاظوں سے ہی اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے یہ انسانی فطرت ہے.

میرے ایک دوست نے کہا کہ بھائی میرا اب گاؤں سے دل اکتا گیا ہے اور رسم و رواج نے میری حلال کی کمائی کا ستیہ ناس کردیا اور اب وہاں جو حالات آتے ہیں میرے دل میں انسیت پیدا نہیں ہوتی حالانکہ میرے اہل خانہ وہاں موجود ہیں معاشرے کی اصلاح کے لئے کوشاں ہوں لیکن کوئی راہنما نہیں ملتا اس مسئلے کے حل کے لیے جب میں نے میرے ایک دوست سے بات کی جن کی قابلیت سے مجھے امید تھی کہ یہ کوئی عملی قدم اٹھائیں گے اور انہوں نے وعدہ بھی کیا. لیکن آج تک ان کی تحریر اس موضوع پر پڑھنے کو نہیں ملی. اب میں ایسا ناامید ہوا کہ کوہ دشت میں اپنے آپ کو دیکھا تو تنہا پایا اور اور سراب کی حسین وادیاں مجھے اپنی موت کی آغوش میں لینے کے لئے بیتاب تھیں ایسے نازک موقع پر میں نے ایک فیصلہ کیا کہ میرے جو مشکل حالات تھے وہ تو ختم ہو گئے اب خامخاہ اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈالوں اور چلو جیسے سب جیتے ہیں ہم بھی جی لیں گے تو شمیم بھائی میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے آج کے بعد میں اس کے بارے میں فکر نہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بدل لوں گا تو سماج والوں کی سوچ ہوگی وہی میری بھی ہوگی اسلئے میں سماج سے کٹ کر بھی جی نہیں سکتا ہوں.

میں نے میرے دوست کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے عزیز آپ نے میری بھی آنکھیں کھول دیں میں بھی کچھ ایسے ہی خیالات کی وادیوں میں بھٹک گیا تھا آپ نے مجھے بچا لیا میرا کوئی حق نہیں بنتا ہے کہ میں ماحول معاشرہ کا بہانہ بنا کر سماج سے درو ہو جاؤں اور لوگوں کے احوال پر تیشہ زنی کروں اور میرے دوست میرے بھی قریب قریب رسم و رواج سے جو بار بار دل پر نشر لگ رہے اب وہ ختم ہو رہے ہیں نسلوں کا خدا حافظ ہے.

پرسوں میں نے اپنے والد محترم سے بات کی تھی تو بتا رہے تھے ابھی گھر سے سائیکل سے نور گنج آیا ہوں اتنی تیز دھوپ ہے کہ سر چکرا گیا اللہ رحم فرمائے

مولانا انظر صاحب مسلسل دعاؤں کے لئے عرض کر رہے ہیں یقیناً یہ وطنی محبت کی علامت ہے اور جیسا کہ میں نے حدیث نقل کی ہے اس کے مصداق نظر آرہے ہیں کہ بندوں سے محبت کی علامت ہے اللہ ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور یہ محبت ہونا بھی چاہئے کیونکہ جس جگہ پر ہم پیدا ہوئے ہیں اور ہمارا بچپنا گزرا ہے وہاں سے محبت فطری بات ہے

اخیر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے رحم و کرم سے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقے میں ایسی رحمت والی بارش کا نزول فرمائے جس سے سبھی حضرات کے تقاضے پورے ہوجائیں.

احقر محمد شمیم

یہ تحریر کچھ خیالی ہے کچھ حقیقت

لکھنے میں جو کمی کوتاہی ہوگی اس کی معافی چاہتا ہوں

کرہی کے ہردلعزیز نیتا وسماجی کارکن جناب مہتاب عالم عرف لڈو صاحب

🌱کرہی کے ہردلعزیز نیتا وسماجی کارکن🌴

💐محترم جناب مہتاب عالم💐

🌷 عرف لڈو صاحب 🌷

ہزاروں سال نرگسں اپنی بے نوری پہ روتی ہے.
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا.

سیاسی نیتا ؤں کا نام جب آتا ہے تو ہمارا ذہن مثبت سوچ سے ہٹ کر منفی کی طرف چلا جاتا ہے. ایک سیاسی نیتا اکثر وعدہ کرتا ہےتو صرف وعدہ ہی رہتا ہے.

اور سیاسی نیتا ؤں کے تعلق سے یہ بات بہت عجیب نہیں. کہ عوام کے ساتھ جھوٹا وعدہ کرو اور غریبوں کا خون چوسو. وعدہ کرو اور اپنی کوٹھی بنگلہ بناؤ بینک بیلنس کرو. وعدہ کرو اور آپس میں لڑادو.

سیاسی نیتا ؤں کے نام کے ساتھ لومڑی کی مکاری اور بھیڑیئے کی طرح سے خون چوس لینا ان کے نس نس میں شامل ہے. عمومی طور پر سیاسی نیتا کچھ ایسے ہی خصلت کے مالک ہوتے ہیں. انسانیت کم حیوانیت زیادہ ہوتی ہے. کسی کے دکھ درد میں مگر مچھ کے آنسو ضرور بہاتے ہیں. لیکن دل میں لاکھوں زہریلے سانپ پنپتے ہیں. جب جہاں موقع ملا ڈس لیا.

ایک انسان ایک انسان کی تباہی کا ذریعہ بنتا ہے. لیکن ایک بد سیاسی نیتا پورے کے پورے گاؤں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے آج یہی بدسیاسی نیتا ؤں نے ہمارے ملک ہندوستان کو اپنی عیاری سے کھوکھلا کر دیا ہے. گنگا جمنی تہذیب کا جنازہ نکال دیا ہے. عوام کے اندر اتنی منافرت پیدا کردی کہ ارباب دانش بھی اس منافرت کو ختم کرنے میں یاس و ہراس نظر آتے ہیں.

لیکن انہیں سیاسی نیتا ؤں میں کچھ ایسے شہباز قسم کے ہوتے ہیں. جن کی فہم بہت اعلی و ارفع ہوتی ہے. جن کی گھٹیوں میں خدمت خلق کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا سمندر ہوتا ہے. ایسے لوگوں کی تعداد گرچہ آٹے میں نمک کے برابر ہے. لیکن ایسے خوددار خوش دل سے آج بھی دنیا خالی نہیں ہے.

ایسا شہباز بقول مولانا انظر صاحب کے نیتا کم سماجی کارکن زیادہ کرہی کے ہردلعزیز محترم جناب مہتاب عالم عرف لڈو صاحب ہیں.

واہ لڈو صاحب آپ کے خدمت خلق سے تمامی احباب بہت خوش ہیں اور آپ کے لئے دعا کرتے ہیں اور آپ کے لئے انشاءاللہ کبھی بھی یہ دنیا تنگ نہیں ہو سکتی ہے اور آپ کے کارنامے ہمیشہ زندہ رہیں گے.

اور آپ  خدمت خلق کے ذریعہ زبان حال سے یہ پیغام وے رہے ہیں.. ہم نے تو دل جلا کے سر عام رکھ دیا.. یقیناً آپ بہت بہت قابل مبارک باد ہیں اس بات پر کہ جب آپ کو احباب نے متوجہ کیا کہ اک غریب جوکہ اونچہرہ کے رہنے والے ہیں اور ہاسپٹل والوں نے ان کے علاج سے منھ موڑ لیا ہے ہر تدبیر بے سود ہوچکی ہے. تو آپ نے خدمت خلق کا بہترین نمونہ پیش کیا وہ غریب مجبور لاچار جو موت وزندگی کے درمیان آنسو بہا رہا ہے اور اس کے بے بسی کے آنسو بار بار آواز دے رہے تھے کہ کوئی تو مسیحا غم خوار آئے اور میرے دوا علاج کا انتظام کرے. اس کے رو رو کر آنسو خشک ہو گئے تھے انتظار کی گھڑیاں ختم ہو رہی تھیں مایوسیوں نے ہر طرف سے نا امید کر دیا تھا. ایسے میں اک امید کی کرن اس غریب کو نظر آتی ہے اور لڈو صاحب آپ پرائیویٹ ہسپتال میں داخل کراتے ہیں. اس وقت اس غریب کے اہل خانہ سے منھ کیا کچھ دعا نکلی ہوگی اور مالک کائنات کتنا خوش ہوا ہوگا میرے بندے نے تیمارداری کا بہترین نمونہ پیش کیا. اللہ رب العزت آپ کی اس نیکی کو قبول فرمائے لڈو صاحب آپ نے یہ ثابت کر دیا کہ آپ غریبوں کے مسیحا ہیں اور نیتا کم سماجی کارکن زیادہ ہیں.

آپ کی سوچ بہت بلند ہے اور اگر آپ کی یہی قومی وملی ہمدردی رہی تو آنے والے دنوں میں انشاءاللہ مزید ترقیاں آپ کا انتظار کر رہی ہیں. احقر آپ کے حوصلے کو مزید بڑھانے کیلئے گروپ کے احباب کی طرف سے یہ شعر پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں.

شاہیں کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا

پر دم ہے اگر تو تو نہیں خطرہء افتاد

چونکہ ہماری زندگی کا بیشتر حصہ پردیس میں گزرا ہے اس لئے آپ سے ملاقات نہیں ہے. لیکن آپ کے سماجی کاموں  نے آپ سے ہم سب کو بہت قریب کر دیا ہے. اور سب سے خوشی کی بات یہ ہے کہ آپ ہمارے گاؤں کرہی کے ہیں اور آپ کے شاندار کارنامے آنے والی نسلوں کو یہ پیغام دیں گے تاریخ کسی کے عمدہ کارناموں کو فراموش نہیں کرتی کہ ایسا خوش دل نیتا کرہی میں ایک وقت میں تھا جس نے غریبوں کے لئے یہ قدم اٹھایا تھا.

خدمت خلق دین کا ایک اہم جز ہے اس کا صلہ دنیا میں عزت ہے اور آخرت میں ابدالآباد والی جنت ہے.

دعا ہے اللہ رب العزت آپ کے خدمات کو بے حد قبول فرماکر اپنی شایانِ شان اجر عطا فرمائے
اور آپ کی عافیت کے ساتھ عمر درازی عطا فرمائے اور مزید ترقیاں آپ کے قدم چومیں تنزلی سے اللہ حفاظت فرمائے اور حاسدوں کے حسد سے فتین کے فتنوں سے اللہ حفاظت فرمائے آمین ثم آمین یا رب العالمین

احقر محمد شمیم بن عبد المتین کرہی

لکھنے میں جو کمی کوتاہی ہوگی معذرت خواہ ہوں

تعویذ استعمال کرنا جائز ہے

[03/09 23:58] shamim ansari: بچوں اور گھر کی حفاظت کے لیے قرآنی تعویذ کا استعمال کیا جائز ہے؟ اور کیا اس کا کسی حدیث سے ثبوت ہے؟ کیوں کہ میں نے مفتی حضرات سے تعویذ لیا ہے، اور اعمال قرآنی میں بھی پڑھا ہے لیکن میری بیوی اس کو نہیں مانتی بلکہ مجھ سے یہ پوچھا ہے کہ یہ کسی حدیث سے ثابت نہیں ہے؟
[03/09 23:59] shamim ansari: ج

وہ تعویذات جس میں شرکیہ الفاظ نہ ہوں، قرآنی آیات حدیثوں میں ذکر شدہ دعاؤوں پر مشتمل ہوں ان کا استعمال جائز ہےاورصحابہ کرام سے ثابت ہے۔( مسند احمد بن حنبل،رقم الحدیث 6696،ج،6،ص،246) (مرقاۃ المفاتیح، کتاب الطہارۃ 8، 36)۔ اس لیے جائز تعویذات کا استعمال جائز ہے، انہیں ناجائز کہنا یا سمجھنا گمراہی ہے۔ فقط واللہ اعلم

تعویذ پہننا جائز ہے

تعویذ کی لغوی معنی "حفاظت کی دعا کرنا" ہے. (مصباح اللغات : ٥٨٣) فعل کے حساب سے (عربی میں) مادہ عوذ کے تحت "عَوَّذَ تَعوِِِيذًا وِ أعَاذَ" باب تفعيل کے وزن سے تعویذ بنتا ہے. (المنجد : صفحہ ٥٩٣) دوسرے لفظوں میں آپ اسے اسم کے حساب سے "تحریری دعا" کہہ لیجئے. جس طرح زبانی دعا کی قبولیت و اثرپذیری الله تعالیٰ کی مرضی پر موقوف ہے، ٹھیک اسی طرح پر قرآن کی آیات پر مشتمل تعویذ یعنی "تحریری دعا" کے اثرات و فوائد بھی الله تعالیٰ کی مشیت و مرضی پر ہی منحصر ہے. مَثَلاً : حدیثِ بخاری و مسلم میں ہے کہ رسول الله (صلی الله علیہ وسلم) پر لبید بن اعصم یہودی کے کیے ہوۓ سحر (جادو) کے اثرات ختم کرنے کے لئے وحی الہی کی ہدایت پر آپ (صلی الله علیہ وسلم) پر "معوذتين" یعنی سوره الفلق اور سوره الناس کا تلاوت کرنا، (تفسیر ابن عباس) صحابی رسول حضرت ابو سعید خدری (رضی الله عنہ) سے مروی وہ حدیث جس میں انہوں ایک سفر میں سورہ الفاتحہ پڑھ کر دم کرنے کے عمل سے سانپ کے کاٹے ہوۓ ایک مریض کا علاج کیا تھا اور وہ تندرست ہوگیا تھا اور بعد میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے سارا واقعہ سنکر سورہ الفاتحہ کی اس تاثیر کی تصدیق فرمائی تھی.





















چونکہ تمیمہ بھی (پناہ حاصل کرنے کے لئے) گلے میں لٹکایا جاتا، تو اسے بھی تعویذ کہا جانے لگا، جبکہ  تعویذ میں اسماء اللہ تعالیٰ یا ادعیہٴ ماثورہ ہوں اور اس کو موٴثر حقیقی نہ سمجھا جاتا ہو (صرف الله کو موثر حقیقی مانتے بطور سبب کے تعویذ اختیار کیا جاتا ہو) تو اس قسم کے تعویذ کو بھی شرک قرار دینا تحکم و زیادتی ہے، اس لیے کہ اس قسم کے تعویذ کے لینے دینے اور استعمال کی اجازت کتب حدیث سے ملتی ہے، (تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو، مرقات شرح المشکاة، ص:۳۲۱ و ۳۲۲، ج۸، الترغیب والترہیب، ج۵ ص۲۷۱، ابوداوٴد شریف، ج۲، ص۹۲ وغیرہا) لہذا بعض لوگوں کا تعویذ پہننے کو مطلقاً شرک قرار دینا غلط ہے.

جہاں تک ان احادیث كا تعلق ہے جس میں آپ (صلی الله علیہ وسلم) نے تعویذ لٹکانے سے منع فرمایا ہے تو یہ اس صورت پر محمول ہیں،

١) جب کہ اس میں غیر اللہ سے استمداد چاہی گئی ہو، جس میں شرکیہ و کفریہ کلمات لکھے ہوں،

٢) یا تعویذ کو موٴثر بالذات (ذاتی طور اثر رکھنے والا)، نافع (نفع دینے والا) اور ضار (نقصان دینے والا) سمجھا جائے جیسا کہ لوگ زمانہٴ جاہلیت میں اعتقاد رکھتے تھے

٣) یا وہ عجمی زبان میں لکھے ہوں تو ان کے معنی معلوم نہ ہوں.

لیکن اگر اسمائے حسنیٰ اور دیگر آیاتِ قرآنیہ و ادعیہٴ ماثورہ لکھ کر لٹکایا جائے تو اس میں مضائقہ نہیں۔ بلکہ موثر حقیقی صرف الله تعالیٰ کو مانا جاۓ اور اس دم و تعویذ کو صرف سبب کے درجہ میں سمجھا جاۓ (جیسا کہ بیماری میں دوا وغیرہ کرانا).

عن جابر رضی اللہ عنہ السئل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عن النشرة فقال ہو من عمل الشیطان رواہ أبوداوٴد قال العلي القاري فی المرقاة النوع الذي کان من أہل الجاھلیة یعالجون بہ ویعتقدون فیہ وأما ما کان من الآیات القرآن والأسماء والصفات الربانیة والدعوات والماثورة النبویة فلا بأس بل یستحب سواء کان تعویذًا أو رقیة أو نشرة (مرقاة : ج۸ ص۳۶۱)

علاج بالقرآن پر اجماع ہے: دیکھئے بخاری شریف کے حاشیہ پر (حاشية بخاري : ١/٣٠٤) لکھا ہے: "فيه جواز الرقية وبه قالت الأئمة الأربعة" یعنی "رقیہ کے جواز پر ائمہ اربعہ قائل ہیں".

فتاویٰ علماۓ : حدیث ج ١٠، ص ٨٢ ، کتاب الایمان و العقائد : "کچھ شک نہیں کہ نفس دم (رقیہ) یعنی ذات دم کی یا ذات تعویذ یا ذات عمل حب (تولہ) کی  نہیں بلکہ ان کی بعض  قسمیں شرک ہیں ؛ اور اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تم ان منتروں کو پڑھ کر مجھ کو سناؤ جب تک ان میں شرک نہ ہو میں کوئی حرج نہیں دیکھتا".[صحيح مسلم  » كِتَاب السَّلَامِ  » بَاب لَا بَأْسَ بِالرُّقَى مَا لَمْ يَكُنْ فِيهِ شِرْكٌ ...رقم الحديث: 4086]
فتاویٰ ثانیہ : ج ١ ، ص  ٣٣٩ ، باب اول : عقائد و مہمات دین : "مسئلہ تعویذ میں اختلاف ہے ، راجح یہ ہے کہ آیات یا کلمات صحیحہ دعائیہ جو ثابت ہوں ان کا تعویذ بنانا جائز ہے ، ہندو ہو یا مسلمان . صحابہ کرام نے ایک کافر بیمار پر سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کیا تھا.