Thursday, 29 October 2015

اس قوم کو شمشیر کی

اس قوم کو شمشیر کی حاجت نہیں رہتی.. ہو جس کے جوانوں کی کی خودی صورت فولاد.. ناچیز جہاں مہ و پرویں ترے آگے.. وہ عالم مجبور ہے تو عالم آزاد.. موجوں کی تپش کیا ہے فقط ذوق طلب ہے.. پنہاں جو صدف میں میں ہے وہ دولت ہے خدا داد.. شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا.. پردم ہے اگر تو تو نہیں خطرہ افتاد.. ....... مطلب.... جس قوم کے جوان اپنی لوہے جیسی مضبوط خودی سے آشنا ہوں اور اس پر مضبوطی سے قائم بھی ہوں. یعنی وہ اپنی اور اپنی قوتوں اور صلاحیتوں سے واقف ہوں. اس قوم کو پھر تلوار فوجی سازو سامان کی ضرورت نہیں رہتی. اس قوم کے لئے ان جوانوں کا جذبہ ایمان اور جذبہ حب الوطنی آلات حرب وضرب سے زیادہ کام کرتا ہے.2.... اے انسان تو اپنے ارادے. اپنی فکر اپنے عمل میں آزاد ہے جبکہ یہ آسمان پر چمکنے والے تارے. چاند وغیرہ آزادی کے ان اوصاف سے محروم ہیں. وہ مجبور محض ہیں اس لئے تو ان سے افضل ہے. یہ تیری بھول ہے کہ تو انکو اپنے آپ سے بلند اور چمکدار سمجھتا ہے وہ تو تیرے شکار ہیں. تو جب چاہے انہیں تسخیر کر سکتا ہے تو ان سب پر فائق ہے... 3...دریا یا سمندر میں موجوں کی تڑپ کو دیکھو وہ کسی شئ کی طلب کے لیے تڑپ رہی ہوتی ہیں. اور اس تڑپ اور طلب کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قدرت اس میں موجود سیپیوں کے اندر موتی چھپا کر رکھ دیتی ہے اور انہیں مالا مال کر دیتی ہے. اصل چیز طلب کی تڑپ ہے. یہ تڑپ ہوگی تو مقاصد بلند بھی حاصل ہونگے... 4..باقی جانور تھوڑا بہت اڑنے کے بعد تھک جاتے ہیں اور کہیں کہیں دم لینے کے لئے بیٹھ جاتے ہیں لیکن باز کو دیکھو وہ گھنٹوں اڑتا رہتا ہے اس کا دم ایسا پکا ہے وہ تھکتا نہیں. اگر تو بھی باز کی طرح پختہ دم ہو تو تجھے بھی اپنی زندگی کی پرواز میں گرنے کا خطرہ نہیں ہے. یہ ہے وہ کھلا ہوا بھید جو علامہ اقبال نے اس نظم میں بیان کر نا چا ہا ہے..... ماخوذ ضرب کلیم.... احقر شمیم

2 comments:

  1. Assalam o Alikum..I am a student and i want some material for speech at this topic...can u plz help me??

    ReplyDelete