موت کسی کے مقام کو نہیں دیکھتی
موت یہ نہیں دیکھتی کہ یہ نوجوان ہے، موت جوانوں کی بھی گردن مڑوڑ دیتی ہے. موت یہ نہیں دیکھتی کہ بادشاہ ہے، گورنر ہے، صدر ہے، آئی جی ہے، ڈی آئی جی ہے، سپریٹنڈینٹ ہے، یہ پیر ہے..
جب موت آتی ہے تو گھر کے گھر اجاڑ دیتی ہے.. بستر خالی کر دیتی ہے. موت یہ نہیں دیکھتی کہ یہ بچہ ہے. ابھی بچہ پیدا ہوتا ہے. ابھی وہ ننھا سا منہ کھولتا ہے، روتا ہے، کوئی مجھے سینے سے لگائے، کوئی مجھے دودھ پلائے کوئی مجھے ہاتھوں پہ اٹھائے، دودھ پینے والا رورہا ہے، پلانے والی کفن پہن کر جارہی ہے..
عزرائیل کہتے ہیں کہ اس بچے پر مجھے ترس آتا ہے. جب اس بچے کی چیخ نکلتی ہے، اور سینے سے لگانے والا کوئی نہیں ہوتا، موت یوں بھی آتی ہے کہ دودھ بہہ رہا ہوتا ہے، بچہ اماں نے نو مہینے پیٹ میں رکھا، سارا محلہ آگیا کہ بچہ آیا ہے، اچھا آیا، سچا آیا، حسین ہے، دلنشین ہے، ماہ جبین ہے، نازنین ہے، بہترین ہے، جمال ہے، لال ہے،
مبارک دے رہے ہوتے ہیں اور دودھ پینے والا ننھا سا بچہ، ایک چسکی بھری اور دودھ بہہ رہا اور پینے والا کفن پہن کر جارہا ہوتا ہے. موت برحق ہے. موت پیغمبر کا گھر نہیں چھوڑتی..
موت نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کے ابا اور اماں کو بھی نہ چھوڑا..
حضور صلی اللہ علیہ و سلم اماں کی گود میں ہیں ابا چلے گئے.. چھ سال کے ہیں اماں چلی گئی.. مجھے آج بھی آمنہ پاک کے وہ الفاظ یاد ہیں. جب محمد صلی اللہ علیہ و سلم کا چہرہ آمنہ نے دیکھا تو آسمان کی طرف منہ کرکے کہا محمد، تو اتنا حسین بچہ ہے. کاش کہ تیرے حسن کو تیرا باپ عبداللہ بھی دیکھ لیتا.
عورتیں آئیں کہنے لگیں، آمنہ اتنا حسین دلنشین ماہ جبین بچہ اتنا پیارا، آنکھوں کا تارا، انعام تو دو، گردن جھکا کر کہا، آمنہ تمہیں انعام کیسے دے، خود بیوہ ہو چکی ہے. محمد صلی اللہ علیہ و سلم یتیم ہو چکا ہے. کیا انعام دوں میں تو بیوہ ہو چکی ہوں..
اماں آمنہ کو ایک بار عبداللہ کی یاد نے ستایا، ابھی آمنہ بیس سال کی تھی، عبداللہ بھی اکیس سال کے جوان تھے.. آمنہ کہنے لگیں اے پیارے محمد تجھے ابو کی قبر پر لے چلوں، تیرے ابا نے وعدہ کیا تھا کہ اونٹ کے گردن کی گھنٹی بجے گی. آمنہ نکل کر استقبال کرنا. تیرا عبداللہ شام سے تحفے لیکر آئے گا..
بڑے قافلے آئے، نہ گھنٹی بجی،نہ عبداللہ آئے، موت کی گھنٹی پہلے بج چکی تھی. سینے میں درد سے کہہ رہا ہوں. محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلی پکڑی اور مدینے لے گئی. عبداللہ کی قبر پر جاکر کہا..
یہاں پر پہنچ کر میرے بھی ہاتھ ٹائپنگ سے کپکپارہے ہیں اور آنکھیں اشکبار ہو گئی ہیں
اس وقت اماں کے دل پر کیا گزری ہوگی
اور ہمارے آقا والدین کی جدائی پر کیسے سسک سسک کر بلک بلک کر روئے ہوں گے
محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی انگلی پکڑی اور عبداللہ کی قبر پر جاکر کہا.. عبداللہ..عبداللہ وعدہ کیا تھا کہ آؤنگا. سال گزر گیا دو سال گزر گئے تو آیا نہیں. رو رو کر میری آنکھیں سرخ ہو گئیں..
محمد صلی اللہ علیہ و سلم نے ادھر اُدھر دیکھا کسی ابا کی شفقت نے سینہ سے نہ لگایا.
عبداللہ ذرا قبر سے نکل کر دیکھ محمد تجھ سے ملنے آیا ہے. اتنا کہا اور وہاں ہی حضرت آمنہ گریں اور بے ہوش ہوگئیں.. اسی صدمہ پر موت آگئی، پھر نہ بول سکیں..
پیارے عبداللہ نکل کر دیکھ.. تیرا بیٹا محمد تجھے ملنے آیا. اتنا کہا اور فرط غم سے اتنی بھر گئیں کہ وہیں بے ہوش ہوگئیں.. اسی صدمہ پر موت آگئی.
موت برحق ہے.. اللہ ہمیں موت کی فکر عطا کرے آمین
اچھی موت آئے آمین
ماخوذ خطبات دین پوری
احقر محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
No comments:
Post a Comment