مولانا علی میاں اور پیام انسانیت
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا
نوع انسانی کو
اخوت کی زباں ہوجا
محبت کی زباں ہو جا
قسط نمبر(3)
سن 1948 عیسوی کی مولانا کی یہ تقریر،، نشان راہ،، کے نام سے دستیاب ہے. اس قسم کے اجتماعات کا کام بہت نازک بھی تھا. کیونکہ ذرا سی بے احتیاطی سے یہ دعوت وحدت ادیان کے لئے راستہ ہموار کرسکتی تھی. اس لئے اس کی باگ ڈور زیادہ تر مولانا نے اپنے ہی ہاتھ میں رکھی. اور اکتوبر سن 1951 میں پھر ایک کوشش کی گئی..
لکھنؤ کے امین الدولہ پارک میں اسی نظریہ کے تحت ایک جلسہ ہوا. اور بقول مولانا علی میاں اس جلسہ میں حاضرین کی اتنی تعداد تھی جو بڑے سے بڑے سیاسی رہنما حتی کہ جواہر لال نہرو کے خطاب میں بھی دیکھنے میں نہیں آئی. من جانب اللہ بات تھی کہ مضامین کی ایسی آمد اور تقریر میں ایسی روانی تھی کہ سامعین ایک سکتہ کے عالم میں تھے اور ایسی خاموشی تھی جسکو (pin drop silence) سے تعبیر کیا جا سکتا ہے..
ان اجتماعات کے اثرات مرتب ہونا شروع ہوئے اور مسلمانوں کو اپنی بات انسانیت کے عنوان سے جرات و ہمت کے ساتھ کہنے کا موقع ملا. ادھر لکھنؤ کے اجتماعات نے قریب کے اضلاع میں بھی اپنے اثرات دکھانے شروع کئے. لیکن مولانا کی عدیم الفرصتی اسفار کی کثرت اور علمی تحقیقی کاموں کی مشغولیت کی وجہ سے باوجود دلی خواہش کے اس طرف پورا وقت نہیں لگا سکے. اسکے مثبت اثرات اور احباب کے اصرار پر سن 1954 میں مولانا نے اس اہم کام کے لئے باقاعدہ وقت نکالا. اور جنوری سن 1954 میں لکھنؤ کے علاوہ جونپور، غازی پور، مئو اور گورکھپور میں اجتماعات کئے گئے. جنہیں مولانا نے خطاب کیا ان اجتماعات میں مولانا نے مخاطبین سے پیغمبرانہ طرز حیات اپنانے کی طرف توجہ دلائی. اور انہوں نے ان اجتماعات کے ذریعہ حاضرین و سامعین کے ذہن و فکر میں تبدیلی لانے کے لئے بار بار پیغمبروں کے اسوہ کا حوالہ دیا ایسے ہی ایک اجتماع میں آپ نے فرمایا..
پیغمبر قلب کی ماہیت بدل دیتے ہیں. وہ انسانوں کے اندر ایسی تبدیلی پیدا کر دیتے ہیں کہ وہ دوسرے انسان کی فاقہ کشی کو نہ دیکھ سکے. وہ اس کے اندر ایثار کی روح، قربانی کا جذبہ اور سچی انسانی ہمدردی پیدا کر دیتے ہیں. اس کو دوسروں کی زندگی اپنی زندگی سے زیادہ عزیز ہو جاتی ہے. وہ اپنی جان کھو کر دوسروں کی زندگی بچانا چاہتا ہے. وہ اپنے بچوں کو بھوکا رکھ کر دوسروں کا پیٹ بھر نا چاہتا ہے. وہ خطروں میں اپنے کو ڈال کر دوسروں کو خطرہ سے محفوظ کرنا چاہتا ہے.
جاری
ماخوذ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃاللہ علیہ
افکار و آثار
احقر محمد شمیم
مدرسہ دارالعلوم
حسینیہ بوریولی
ممبئی
No comments:
Post a Comment