Thursday, 29 October 2015

ایک وہ دل تھا. ایک یہ دل ہے

��ایک وہ دل تھا ��
��ایک یہ دل ہے ��

��پر دونوں میں ��
��بڑا فرق ہے ��

وہ کسی ساہوکار کا قصہ مشہور ہے. کہ اس نے بیوی سے کہا کہ وہ ذرا سل کا بٹہ میرے پاس اٹھا لا. (سل کا بٹہ جس سے مسالہ پیسا جاتا ہے) تو اس نے اپنی نزاکت دکھلائی کہ میرے سے کیسے اٹھے گا. میں نازک اندام ٹھہری اور یہ سل کا بھاری پتھر اتنے وزن کا مجھ سے کیسے اٹھے گا. ؟ وہ ساہوکار بڑا گھبرایا کہ اس نزاکت کے ساتھ میرا گزر کیسے ہو گا. میں تو کسان آدمی ہوں.

میری بیوی تو ایسی ہونی چاہئے جو محنت مزدوری کر سکے. کچھ بوجھ بھی اٹھا سکے.یہ دو سیر سل کا بٹہ اٹھانا اسے بھاری ہو رہا ہے. میرے گھر میں اس کا کیسے گزر ہوگا. مگر تھا وہ بھی ہوشیا. شام کو وہ آیا اور چپکے سے سل کا بٹہ اٹھا کر لے گیا.

اور اس کے اوپر سونے کا پتر چڑھ واکے ایسا کر وادیا جیسے وہ سونے کا ہو. گھر آیا اور بیوی سے کہا کہ میں اڑھائی سیر کا بڑا عمدہ زیور بنواکر تیرے واسطے لایا ہوں. اور مضبوط ایسا کہ. دادا برتے. تو پوتا بھی برتے. اس کے گھسنے کو کوئی صورت نہیں. اور وہ میرے پاس ہے.

وہ اب شوق میں بیتاب ہے کہ جلدی سے اسے کھولے اور وہ ساہوکار ہے کہ شوق تو اسے دلا رہا ہے مگر کھولتا نہیں. کہنے لگا تو اسے پہنے گی؟ کہنے لگی یقینا پہنونگی. تھا تو وہ سل کا بٹہ لیکن اس پر پر پتر چڑھوایا. اور سونے کی زنجیر بھی اس میں ڈلوا کر لایا تھا.

اس نے نکالا تو بڑی بے تابی سے اس نے گلے میں ڈالا اور دن بھر پہنے ہوئے پھر رہی ہے. کام کاج بھی کر رہی ہے. ساہوکار نے کہا کہ یہ زیور اچھا ہے؟ بوجھ تو نہیں لگتا؟ کہنے لگی کہ نہیں بالکل بوجھ نہیں لگتا، کہنے لگا کمبخت یہ وہی پتھر تو ہے جو کل تم سے نہیں اٹھتا تھا اور آج گلے میں ڈالے ہوئے پھر رہی ہے. محض اسلئے کہ اس پر سونے کا نام آگیا ہے.

تو سونے اور چاندی کی محبت میں عورت غرق ہوتی ہے.. اور وہ مرد کو بھی مبتلا کرتی ہے.

مگر یہ جناب رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم فیض صحبت تھا کہ عورتوں کو بھی آپ نے اتنا غنی بنادیا تھا کہ ان کے قلوب سونے اور چاندی سے بالا تر ہو گئے تھے..

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا جو نبی پاک صلی اللہ علیہ و سلم کی زوجہ پاک ہیں. ان کے بھانجے حضرت عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی وفات کی وفات کے بعد مکہ مکرمہ کے حاکم بنائے گئے

خزانے کی بوری بھر کر اس میں سونا چاندی، اشرفیاں اور روپوں سے اچھی طرح بھر کے اپنی خالہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس بطور ہدیہ بھیجی. صدیقہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے باندی سے فرمایا کہ میں اتنی دولت کیا کروں گی. غریبوں میں تقسیم کر دو باندی نے تقسیم کرنی شروع کردی.

دن بھر میں وہ ساری بوری ختم ہو گئی، لاکھوں روپے کا سونا چاندی تھا وہ سب ختم ہو گیا. شام کو باندی نے کہا ام المومنین تین دن سے آپ کے اوپر فاقہ ہے. آپ نے بھی اس میں سے کچھ روپے رکھ لئے ہوتے.

فرمایا اری جا بے و قوف پہلے سے نہ کہا میں بھی دو چار روپے رکھ لیتی. جب بوری ختم ہو گئی جب تم نے کہا.
تو یہ بھی یاد نہیں تھا کہ میرے اوپر تین دن سے فاقہ ہے اسی کو یاد کر کے دو چار روپے رکھ لیتیں.

گویا اتنا استغناء قلب میں پیدا ہوچکا تھا کہ بوری رکھی ہے. اور تین دن سے فاقہ ہے مگر دھیان نہیں جاتا کہ اس میں سے کچھ اپنے لئے رکھ لیں.

❄ماخوذ خطبات حکیم الاسلام ❄

��منجانب اتحاد و اتفاق گروپ �� گروپ میں شامل ہونے کے لئے پرسنل پر رابطہ کریں

8976736463

No comments:

Post a Comment