Thursday, 29 October 2015

دعا کی چار قسمیں

[07:53, 28/10/2015] Shamimansari Ansari: دعا کی چار قسمیں ہیں
شیح العرب و العجم حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ نے فرمایا کہ دعا کی چار قسمیں ہیں:(۱)  دعائے فرض، مثلاً نبی علیہ السلام کو حکم ہوا کہ اپنی قوم کی ہلاکت کے لیے دعا کریں تو اب اس نبی علیہ السلام پر یہ کرنا فرض ہوگیا۔ (۲) دعائے واجب، جیسے دعائے قنوت (نماز وتر میں)۔ (۳) دعائے عبادت جیسا کہ عارفین کرتے ہیں اور اس سے محض عبادت مقصود ہے، جو امرِ الٰہی کی تعمیل (بجا آوری) کے طور پر ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ دعا میں تذلل ہے۔ اور تذلل (عاجزی انکساری) اللہ تعالیٰ کو بہت محبوب ہے اسی لیے حدیث پاک میں ہے۔ ”الدعاء مخُّ العبادة“ (دعا عبادت کامغز ہے) وارد ہوا ہے۔ (برکات دعا: ص137)

دعائیں خوب مانگتے رہنے کا صحابہؓ کا وعدہ
حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ،روئے زمین پر کوئی (ایسا) مسلمان نہیں جو اللہ تعالیٰ سے کوئی دعا مانگے مگر یہ کہ اللہ اس کی دعا قبول نہ فرمائے۔ یا یہ کہ اس کے برابر کوئی بُرائی اس سے دور کردی جائے، جب تک کسی گناہ اور قطع رحم کی دعا نہ مانگے۔ یہ سن کر صحابہؓ میں سے ایک صحابیؓ نے عرض کیا کہ یارسول الله (صلی اللہ علیہ وسلم) اب تو ہم خوب دعا مانگا کریں گے۔تو اس کے جواب میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ تعالیٰ بھی بہت قبول کرنے والے ہیں۔ (ترمذی، حاکم) (ماخذبرکات دعا: ص140)

دشمنوں سے نجات دلانے والا پیغمبرانہ اسلحہ
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعا موٴمن کا ہتھیار ہے۔ دین کا ستون ہے، آسمانوں اور زمینوں کا نور ہے۔ (مسند ابویعلی، حاکم فی المستدرک)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تم کو وہ چیز نہ بتاوٴں، جو تم کو دشمن سے نجات دلائے اور تمہارے لیے روزی (مینہ اور بارش کی طرح)برسائے، وہ یہ کہ تم اللہ تعالیٰ کو پکارتے (دعائیں مانگتے) رہو، دن اور رات۔ یہ اس لیے کہ دعا موٴمن کا ہتھیار ہے، جو ہر قسم کی بلاوٴں کی محافظ اور حصول مال و جاہ کے لیے برابر وسیلہ ہے۔

حضورنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہیں وہ چیز بتلاتا ہوں جو تمہیں تمہارے دشمنوں سے نجات دلائے اور تمہاری روزی بڑھائے، وہ یہ کہ تم رات دن میں (جس وقت بھی موقع ملے) اللہ تعالیٰ سے (اپنی حاجات کے لیے) دعا مانگا کرو، کیوں کہ دعا مسلمانوں کا ہتھیار ہے۔ (برکات دعا: ص146-145)

مسلمان کی تین عادتیں اللہ تعالیٰ کو بہت پیاری لگتی ہیں
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حضرت جبرئیل علیہ السلام نے فرمایا، اللہ تعالیٰ کو اپنے بندوں کی تین عادات بہت پسند ہیں: (۱)اپنی تمام طاقت و قوت کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں صرف کردینا۔ (۲)پشیمانی کے وقت گریہ وزاری کرنا (یعنی گڑگرا کر دعائیں مانگنا)۔ (۳)تنگ دستی کے وقت صبر و تحمل سے کام لیتے ہوئے اللہ تعالیٰ کا شکوہ شکایت نہ کرنا۔(برکات دعا: ص153)

تین قلوب کے ساتھ دعا کرو
عارف باللہ حضرت شیخ خواجہ علی رامتینیؒ فرمایا کرتے تھے، جب تین قلوب ایک میں جمع ہوکر دعا کرتے ہیں تو ایسی دعا رد نہیں ہوتی۔ ایک سورہٴ یٰسٓ کہ جو دل ہے قرآن مجید کا۔ دوسرا شب آخر (یعنی سحر و تہجد کا وقت) جو دل ہے رات کا اور ایک دل اللہ تعالیٰ کے موٴمن بندے کا ہے، لہٰذا جس وقت یہ تینوں دل جمع ہو جاتے ہیں تو دعا ضرور قبول ہو جاتی ہے۔

مطلب یہ کہ تہجد کے وقت اٹھ کر نماز تہجد سے فارغ ہوکر سورہٴ یٰسٓ کی تلاوت کرنے کے بعد دل سے دعا کی جائے تو انشاء اللہ تعالیٰ تین دلوں کے جمع ہونے کی وجہ سے کی جانے والی دعا ضرور قبول کی جائے گی۔ (برکات دعا: ص157)

امام رازیؒ کا اپنی زندگی بھر کا تجربہ
حضرت امام رازی رحمہ الله فرماتے ہیں، انسان اپنے معاملات (ضروریات، مشکلات و حاجات) میں جب بھی اللہ تعالیٰ کے ا وپر بھروسہ (پورا یقین) اور اطمینان رکھتا ہے، تو راستہ کی تمام مشکلات حل ہو جایا کرتی ہیں، لیکن جہاں غیر اللہ کا تصور ذہن میں اُبھرا، یا ان پر کسی طرح کا بھروسہ رکھا تو بس وہیں سے پریشانیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ میرا بچپن سے اب تک کا تجربہ ہے۔ (برکات دعا: ص192)

اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد یوں فرمایا
عارف ربانی حضرت شیخ سہل بن عبداللہ تستریؒ فرماتے ہیں، اللہ تعالیٰ نے مخلوق کو پیدا کرنے کے بعد فرمایا کہ، اے میرے بندو! راز مجھ سے کہو، اگر راز نہ کہہ سکو، تو نظر مجھ پر رکھو، اگر یہ بھی نہ ہوسکے تو حاجت تو صرف مجھ ہی سے طلب کرو، اگر ایسا کروگے تو تمہاری حاجت روائی کی جائے گی۔ (برکات دعا: ص195)

دعا کی قبولیت کے لیے یہ بات ضروری ہے
عارفوں میں سے کسی عارف نے یہ فرمایا کہ مخلوق سے سوال کرنے (مانگنے) کی برائیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سائل کی دعا اس کے حق میں مستجاب (قبول) نہیں ہوتی، کیوں کہ اجابتِ دعا کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ مخلوق سے ناامید اور ہر قسم کے
[07:55, 28/10/2015] Shamimansari Ansari: دعا کی قبولیت کے لیے یہ بات ضروری ہے
عارفوں میں سے کسی عارف نے یہ فرمایا کہ مخلوق سے سوال کرنے (مانگنے) کی برائیوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ سائل کی دعا اس کے حق میں مستجاب (قبول) نہیں ہوتی، کیوں کہ اجابتِ دعا کے لیے یہ بات لازمی ہے کہ مخلوق سے ناامید اور ہر قسم کے علائق سے مبرّا ہوکر اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کیا جائے، مخلوق کی طرف نظر رکھنے کی حالت میں دعاوٴں کا قبول ہونا مشکل ہے۔ (مخزن اخلاق) ( برکات دعا: ص198)

تین آدمیوں کی دعاوٴں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں
حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تین آدمیوں کی دعاوٴں کے قبول ہونے میں کوئی شک نہیں: (۱)والد کی دعا اپنے لڑکے کے لیے۔ (۲)مسافر کی دعا حالت سفر میں۔ (۳) مظلوم کی دعا حالت اضطرار میں۔(برکات دعا: ص221)

دعا کے لیے دوسروں سےدرخواست کرنا یہ پیغمبرانہ سنت ہے
حضرت عمرؓ فرماتے ہیں کہ: میں نے ایک مرتبہ عمرہ کے سفر پر جانے کے لیے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اجازت مانگی، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی اور ساتھ ہی یوں فرمایا: اشرکنا یا اخیْ فی دعائک و لا تنسنَا، یعنی میرے بھائی! ہم کو بھی اپنی دعا میں شریک رکھنا اور ہم کو بھول نہ جانا۔

یہ سن کر عمرؓ نے فرمایا، حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان سے مجھے اتنی خوشی ہوئی کہ اس کے بجائے اگر پوری دنیا مجھے مل جاتی تب اتنی خوشی نہ ہوتی جس قدر مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ان مقدس کلمات فرمانے سے ہوئی۔ (ابوداوٴد، ترمذی، مشکوٰة)

تشریح: حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بعضے منافع اہل کمال کو بھی اپنے سے کم مرتبہ والوں سے پہنچ سکتے ہیں، پس کسی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ اپنے کو مستغنی محض سمجھے۔

اس حدیث پاک سے یہ بھی معلوم ہوا کہ دوسروں سے اپنے لیے دعا کرانا بھی محمود و مستحسن فعل ہے، یہ کوئی ضروری نہیں کہ جس سے دعا کے لیے کہا جائے وہ دعا کی درخواست کرنے والے سے افضل یا بڑا ہو۔

جب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمرؓ سے دعا کے لیے فرمایا تو اس سے یہ ثابت ہوگیا کہ اکابر کو بھی اپنے چھوٹوں سے دعا کے لیے کہنا چاہیے۔ (برکات دعا: ص246)

اسباب کے تحت ہر کام کے لیے کوشش کرنا انسان کے فرائض میں سے ہے
پیرانِ پیر سیدنا عبدالقادر جیلانیؒ فرماتے ہیں: بیٹے تجھ سے کچھ نہیں ہوسکتا اور تیرے کیے بغیر چارہ بھی نہیں ،بس تو کوشش کر، مدد کرنا اللہ تعالیٰ کا کام ہے، اس سمندر (یعنی دنیا) میں جس کے اندر تو ہے اپنے ہاتھ پاوٴں کو ضرور ہلا، موجیں (حوادثاتِ زمانہ) تجھ کو اٹھا کر اور پلٹے دلاکر کنارہ تک لے بھی آئیں گی۔ تیرا کام دعا مانگنا ہے اور قبول کرنا اس کا کام، تیرا کام سعی کرنا ہے اور توفیق دینا اس کا کام۔ تیرا کام ہمت سے معصیتوں (گناہوں) کو چھوڑنا ہے اور بچائے رکھنا اس کا کام ہے۔ تو اس کی طلب میں سچا بن جا، یقینا وہ تجھ کو اپنے قرب کا دروازہ دکھلا دے گا، تو دیکھے گا کہ اس کی رحمت کا ہاتھ تیری طرف دراز ہوگیا۔ (برکات دعا: ص265)

حضور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ دعا اس طرح مانگو
حکیم الامت حضرت تھانویؒ نے فرمایا: حضرت فضالة بن عبیدؓ سے روایت ہے، ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تشریف فرما تھے کہ اچانک ایک صحابی تشریف لائے اور آتے ہی نماز پڑھی، سلام پھیر کر (دعا کے لیے ہاتھ اٹھا کر) وہ کہنے لگے اللہمَّ اغفرلی وارحمنی۔ یہ سن کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اے نماز پڑھنے والے! تو نے جلدی کی، جب تو نماز پڑھ کر فارغ ہو جائے، تو پہلے اللہ تعالیٰ کی ایسی حمد کر جس کا وہ اہل ہے، پھر مجھ پر درود بھیج، پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کر، راوی فرماتے ہیں: اس واقعہ کے بعد ایک اور صحابی تھوڑی دیر میں تشریف لائے اور انہوں نے بھی دوگانہ ادا کی، سلام پھیر کر انہوں نے پہلے اللہ تعالیٰ کی حمد (تعریف) کی اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا، بس اتنا سن کر خود نبیٴ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا کہ، اے نماز پڑھنے والے! دعا مانگ، تیری (جائز) دعا قبول کی جائے گی۔ (ابوداوٴد، ترمذی، نسائی، احمد و ابن حبان) ( برکات دعا: ص273)

کوئی دعا آسمان تک نہیں پہنچتی مگر
حضرت عبداللہ بن یسرؓ سے روایت ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دعائیں ساری کی ساری رُکی رہتی ہیں، یہاں تک کہ اس کی ابتدا اللہ تعالیٰ کی تعریف (حمد وثنا) اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر درود سے نہ ہو۔ اگر ان دونوں کے بعد دعا کرے گا تو اس کی دعا قبول کی جائے گی۔ (فضائل درود شریف:ص76) ( برکات دعا: ص277)

ہم دعا مانگتے ہیں یا اللہ میاں کو آرڈر دیتے ہیں
عارف باللہ حضرت مولانا صدیق احمد باندویؒ فرماتے ہیں،اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق صحیح نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ خدا سے جو مانگا کریں وہ ملتا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام
[07:56, 28/10/2015] Shamimansari Ansari: ہم دعا مانگتے ہیں یا اللہ میاں کو آرڈر دیتے ہیں
عارف باللہ حضرت مولانا صدیق احمد باندویؒ فرماتے ہیں،اللہ تعالیٰ سے ہمارا تعلق صحیح نہیں، ہم چاہتے ہیں کہ خدا سے جو مانگا کریں وہ ملتا رہے۔ اللہ تعالیٰ ہمارے تمام کام بناتا رہے تو اللہ تعالیٰ سے تعلق ہے، ورنہ نہیں۔ نرینی (یہ ایک قصبہ کا نام ہے) میں ایک صاحب نماز کے بڑے پابند تھے، عرصہ کے بعد حضرت سے ان کی ملاقات ہوئی تو دیکھا کہ انہوں نے نماز وغیرہ عبادات سب چھوڑ دی تھی اور مجھ سے کہا، مولانا میں اتنے دن سے نماز پڑھ رہا ہوں، پریشان حال ہوں، دعائیں کرتا ہوں، مگر میری پریشانی دور نہیں ہوتی، ایسی نماز پڑھنے سے کیا فائدہ؟ اس لیے میں نے نماز وغیرہ چھوڑ دی۔

یہ سن کر حضرتؒ نے فرمایا: ارے بندہٴ خدا! تم اللہ تعالیٰ کی ماننے آئے ہو یا خدا سے منوانے آئے ہو؟ نماز تو اس واسطے پڑھی جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ کا حکم ہے، فرض ہے، بندگی کے واسطے نماز پڑھی جاتی ہے پریشانی ہو یا نہ ہو، پھر ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کب مانگتے ہیں ہم تو اللہ تعالیٰ کو آرڈر دیتے ہیں کہ، یا اللہ یہ بھی ہو جائے، یہ بھی کر دیجیے (نعوذباللہ) جیسے نوکر سے کہا جاتا ہے کہ یہ کام کرلینا، یہ بھی کردینا ، کھیت میں ہل بھی جوت دینا، بازار سے سودا بھی لیتے آنا وغیرہ؛ اسی طرح (نعوذباللہ) ہم بھی اللہ تعالیٰ سے مانگتے نہیں بلکہ آرڈر دیتے ہیں، یاد رہے! اللہ تعالیٰ مانگنے پر دیتے ہیں، آرڈر پر نہیں دیتے۔

مانگنا اور چیز ہے، آرڈر دینا اور چیز ہے، مانگنے کے طریقے سے مانگو پھر دیکھو، اللہ تعالیٰ دیتے ہیں یا نہیں؟ پہلے اللہ تعالیٰ سے نسبت تو قائم کرو، احکام پر عمل کرو﴿ایاک نعبد﴾ پہلے فرمایا کہ ہمارا آپ سے یہ تعلق ہے کہ تیری غلامی کا اقرار کرتے ہیں اور جب تیرے غلام ہیں تو تیرے سوا ہم جائیں کہاں؟ تو ہی ہماری مدد فرما!

ہم بندے بننے کو تیار نہیں اور لینے کو تیار ہیں، نماز ایک وقت کی نہیں پڑھتے، گھر میں تلاوت نہیں، ٹی وی گھر میں ہے اور چاہتے ہیں کہ جو ہم چاہیں وہ اللہ تعالیٰ پورا کردیں، شکایت کرتے ہیں کہ اولاد کہنا نہیں مانتی، ارے! تم اللہ کی کتنی مانتے ہو؟ ایک بے نمازی کی نحوست نہ معلوم کتنے گھروں تک ہوتی ہے۔ بے نمازی کے گھر اللہ کی رحمت و برکت نہیں ہوتی اور یہاں پورا کا پورا گھر بے نمازی ہے، اللہ تعالیٰ کی رحمت کیسے آئے، دعائیں کیسے قبول ہوں؟ (برکات دعا: ص664)

خلاصہ یہ کہ آج ہم عمومی طور پر اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہیں اور اگر ہیں تب بھی اس پر عمل پیرا نہیں، جہاں ہم نے اسلام کی بہت سی تعلیمات سے کنارہ کشی اختیار کی وہیں ہم دعا سے غفلت میں پڑے ہوئے ہیں نہ اس کی تعریف کا ہمیں علم، نہ اس کی حقیقت سے واقف، نہ اس کی طاقت اور اثر پر یقین، نہ دعا کرنے کا طریقہ اور سلیقہ معلوم۔ احقر نے برکات دعا نامی حضرت مولانا ایوب صاحب سورتی ماکھنگوئی دامت برکاتہم سے اکثر و بیشتر اقتباسات اس مضمون میں نقل کردے ہیں، ورنہ کتاب تو بڑی ضخیم ہے؛ البتہ اس موضوع پر ایک عمدہ کتاب ہے۔ اللہ موٴلف کو جزائے خیر عطا فرمائے اور ہم سب کو دعاوٴں سے وابستہ کردے اور اللہ ہم سے راضی ہو جائے۔اب چند اشعار پر میں مضمون کو سمیٹتا ہوں۔ محمد یوسف شکور تاج دعا کے بارے میں فرماتے ہیں:
        رد وقبول پر تیری ہرگز نہ ہو نظر
        تو بندگی وعجز سے حسنِ وفا سے مانگ
        اے تاج پھر تیری دعا ہو جائے گی قبول
        زاری سے انکساری سے اور التجا سے مانگ

حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکیؒ فرماتے ہیں:
        کہاں جائے جس کا نہیں کوئی تجھ بن
        کسے ڈھونڈے جو ہو طلبگار تیرا
        تو میرا، میں تیرا، میں تیرا، تو میرا
        ترا فضل میرا مرا کار تیرا
        کوئی تجھ سے کچھ، کوئی کچھ چاہتا ہے
        میں تجھ سے ہوں طلبگار تیرا
        اپنی رضا میں مجھ کو مٹا دے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
       کردے فنا سب مرے ارادے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
        جام محبت اپنا پلادے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
        دل میں مری یاد اپنی رچادے اے مرے اللہ اے مرے اللہ
        شغل میرا بس اب تو الٰہی شام وسحر ہو اللہ اللہ
        لیٹے بیٹھے، چلتے پھرتے، آٹھ پہر ہو اللہ اللہ
        مایوس نہ ہوں اہل زمیں اپنی خطا سے
        تقدیر بدل جاتی ہے مضطر کی دعا سے
        قفل در قبول نہ کھولے یہ بعید ہے
        انسان کے پاس دست دعا ہی کلید ہے
        کیوں دعا اپنی نہ ہو بابِ ظفر کی کنجی
        گر یہ ہے قفلِ درِ گنج اثر کی قبول
        تراشے تیرے وہم نے جو صنم ہیں
        وہ اصنامِ باطل گراتا چلا جا
        نہیں کوئی حاجت روا جز خدا کے
        حقیقت یہی ہے بتاتا چلا جا                    (برکات دعا: ص778-780)

No comments:

Post a Comment