حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی شخصیت اور ان کا پیغام
مثل خورشید سحر فکر کی تابانی میں
شمع محفل کی طرح سب سے جدا سب کا رفیق
یہ مولانا ابو الحسن علی ندوی کی شخصیت تھی جس نے گلشن دین و علم و ادب کے بہت سارے پھولوں کا عطر کشید کر لیا تھا. ان کی ذات میں مدرسہ بھی تھا اور خانقاہ بھی. علم و ادب کا سکون بھی تھا اور تحریک واجتماعیت کی گرمی محفل بھی. فکر کی تابانی بھی تھی اور انشاء کی درخشانی بھی اور حسن اخلاق کی دلبری بھی. وہ ان سے بھی مخاطب ہوتے تھے جو اورنگ نشیں سلطنت ہیں. اور ان کو بھی پیغام انسانیت دیتے تھے جو برادران وطن ہیں یہی جامعیت کا کمال ہے جو ان کی شخصیت کا امتیاز خاص ہے...
مولانا علی میاں ایک نامور عالم دین ایک بلند پایہ مصنف و دانشور. اور ایک صاحب طرز ادیب. ایک سحر انگیز خطیب. ایک منفرد مؤرخ اور سیرت نگار تھے. لیکن سب سے بڑھکر وہ ایک داعی ایک مصلح اور ایک صاحب دل مزکی اور مربی تھے. انتمام اوصاف کے اجتماع نے ان کو بیسویں صدی کے اسلامی احیاء کے معماروں میں ایک درخشاں مقام پر متمکن کیا. مولانا علی میاں کا اصل میدان تاریخ اور دعوت ہے. سیرت اور انسان سازی ہے. روح کی بیداری اور امت کی ترقی کے لئے اسلاف کے نمونے کا احیاء ہے. ان کے یہاں خانقاہ اور جہاد. تزکیہ اور انقلاب دونوں دھارے ساتھ ساتھ رواں نظر آتے ہیں..
مولانا علی میاں ندوہ کی میعاد تعلیم پوری کرنے کے بعد اپنے بڑے بھائی اور مربی ڈاکٹر عبدالعلی صاحب کی ھدایت پر جو خود فاضل دیوبند تھے. حدیث و قرآن کی مزید تعلیم کے لئے دارالعلوم دیوبند آئے. اور مولانا حسین احمد مدنی سے خصوصی طور پر استفادہ کیا. حضرت مولانا علی میاں نے جہاں ندوۃالعلماء لکھنؤ میں تعلیم پائی وہیں وہ دارالعلوم دیوبند سے بھی استفادہ میں پیچھے نہیں رہے سال بھر رہ کر پابندی سے سماعت فرمائ اور اس کے فیوض و برکات سے متمتع ھوئے. مولانا کو دارالعلوم دیوبند اور ان کے بزرگوں سے گہری عقیدت تھی. ان کا نام بڑی عقیدت و محبت سے لیا کرتے تھے.
دارالعلوم دیوبند کے صد سالہ اجلاس میں آپ نے جو تاریخی تقریر فرمائی وہ اپنی مثال آپ ہے. حضرت مولانا نے کاروان زندگی میں لکھا ہے.. میں 22مارچ سن 80ء جلسہ گاہ میں پہونچا تو انسانوں کا ایک جنگل نظر آتا تھا اور میدان عرفات کا ایک ہلکا سا نقشہ. اس وقت میرا عربی میں تقریر کرنے کا پروگرام تھا مگر مجھے اس عظیم الشان مجمع کے سامنے عربی زبان میں تقریر کرنا ایک مصنوعی و نمائشی عمل نظر آیا جس کے لئے میرا ضمیر تیار نہیں ہوا،،
چنانچہ مولانا نے اردو میں تقریر شروع کی. تاکہ سارا مجمع سمجھے مولانا نے اپنی تقریر کا جو حصہ نقل کیا ہے. اس کا کچھ حصہ نقل کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے. فرمایا.. ہم صاف اعلان کر تے ہیں اور ہم چاہتے ہیں کہ آپ بھی اعلان کر یں کہ ہم ایسے جانوروں کی زندگی گزارنے پر ہرگز راضی نہیں. جن کو صرف زندگی اور تحفظ چاہیے کہ ان کو کوئی مارے نہیں. ہم ہزار بار ایسی زندگی گزارنے کے اور ایسی حیثیت قبول کرنے سے انکار کر تے ہیں. ہم اس سر زمین پر اپنی اذانوں اور نمازوں کے ساتھ رہیں گے. بلکہ ہم تراویح اور اشراق و تہجد تک چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہوں گے. ہم ایک ایک سنت کو سینے سے لگا کر رہیں گے. ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کی سیرت کو سامنے رکھ کر کسی ایک نقش بلکہ کسی نقطہ سے بھی دست بردار ہو نے کے لئے تیار نہیں، مسلہ علوم ایمانی کے باقی رکھنے کا ہے. اور اسلامی تشخص کے تحفظ کا ہے، آپ دوسروں کے پیچھے چلنے کے لئے ہرگز نہیں پیدا کئے گئے. اور نہ خدا نے آپ کو اس ملک میں اس لئے بھیجا ہے، ہم تو دنیا کی قیادت و امامت کے لئے پیدا کئے گئے ہیں
آگے چل کر فرمایا،، میرے عزیزو اور دوستو؛ میں پورے وثوق کے ساتھ کہتا ہوں کہ مولانا محمد قاسم نانوتوی اور ان کی روح کا یہی پیغام ہے. حضرت شیخ الہند اسی فکر میں پگھلتے اور گھلتے رہے، حکیم الامت حضرت تھانوی اور مولانا مدنی اسی کے لئے ہمیشہ سوزاں اور لرزاں رہے کہ ہندوستانی مسلمان اپنی خصوصیات اور ملی تشخصات کے ساتھ اس ملک میں باقی رہیں. قرآن و سنت کو کو سینے سے لگائے رکھیں.. اللہ تعالٰی حضرت مولانا علی میاں صاحب کے درجات کو بلند فرمائے اور ان کے پیغام کو سمجھنے کی اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
ماخوذ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی افکار و آثار
احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
No comments:
Post a Comment