مولانا علی میاں اور پیام انسانیت
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا نوع انسانی کو
اخوت کی زباں ہوجا محبت کی زباں ہو جا..
قسط نمبر( 2)
مولانا علی میاں سفر حج سے واپس تشریف لائے تو یہ صورت حال ان کے سامنے تھی انہوں نے جو کچھ اخبارات اور خطوط کے ذریعہ پڑھا سنا تھا اس سے کہیں بدتر حالت دیکھ کر انہیں قرار نہیں آیا اگر چہ کچھ ہندوستانی مسلم رہنما جیسے مولانا حفظ الرحمن سیوہاروی. رومی مرحوم، ڈاکٹر سید محمود، حافظ ابراہیم، وغیرہ اس صورت حال کو بدلنے کی مسلسل کوشش کر رہے تھے.
اور وہ برادران وطن خصوصا کانگریسی رہنماؤں کو مسلمانوں کا ہم نوا بنا رہے تھے. لیکن فضا اس قدر بدل چکی تھی کہ غیر مسلم اکثریت کے دانشور اور زیادہ تر وہ لوگ جو حکومت کے اونچے عہدوں اور وزارتوں پر سرفراز تھے. مسلمانوں کو ایسے مثقفانہ اور دانشوارانہ طریقہ پر مشورہ دیتے تھے جیسے اس ملک کے سارے مسلمان طفل مکتب ہیں..
اس صورت حال کو محسوس کر تے ہو ئے مولانا اس کے پائیدار حل کی تدابیر کرنے لگے نفرت کے بجائے محبت کے نکتہ پر انکی نگاہیں مرتکز ہوگئیں اور وہ انسانوں کو ان کا مقام یاد دلانے کی کوشش میں جٹ گئے. وہ انسانوں کو بتانا چاہتے تھے کہ فرقہ ومسلک اور مذہب سے بڑھکر انسانوں کا انسانوں سے ایک رشتہ انسانیت کا ہے..
اور یہی رشتہ مضبوط اور پائیدار ہے. جتنے پیغمبر ولی رشی آئے انہوں نے اس راہ کو اختیار کیا دیئے سے دیئے جلے اور انسانیت کی روشنی پھیلتی گئی.
اس جذبہ اور احساس کے تحت مولانا نے 26 اگست سن 1948 عیسوی کو مختلف مکاتیب خیال کے درد مندوں کا ایک اجتماع لکھنؤ میں بلایا. جس میں اس وقت کے خطرناک پہلوؤں پر تنقید کرتے ہوئے حالات کے روشن پہلوؤں کو بھی نمایاں کیا گیا. اس سلسلے میں مولانا علی میاں کی یہ پہلی کوشش تھی اس اجلاس میں یہ بھی طے پایا کہ دعوتی وتعارفی لٹریچر ہندی انگریزی اور دوسری زبانوں میں عام کرکے غیر مسلموں اور مسلمانوں کے درمیان بڑھتی خلیج کو روکا جائے..
ہندو مسلم مخلوط اجتماع کی یہ کوشش کامیاب رہی اور اس سے حوصلہ پاکر مولانا نے ان مخلوط اجتماعات کو اپنے تبلیغی مشن کا حصہ بنالیا. جس میں انہوں نے نے مولانا منظور نعمان صاحب کو اپنا رفیق رکھا . ان اجتماعات سے ان کا مقصد ایک ایسے معاشرہ کی تعمیر تھا جس میں امن و امان ہو، پیارمحبت ہو، بھائی چارگی ہو، اور ایک دوسرے سے ہم دردی ہو..
جاری
ماخوذ مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمۃاللہ علیہ
افکار و آثار
احقر محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی
No comments:
Post a Comment