مولانا علی میاں
اور پیام انسانیت
ہوس نے ٹکڑے ٹکڑے کر دیا
نوع انسانی کو
اخوت کی زباں ہوجا
محبت کی زباں ہو جا
قسط نمبر 4
سن 1948 کی مولانا کی یہ تقریر،، نشان راہ،، کے نام سے دستیاب ہے.
اس تقریر میں مولانا نے پیام انسانیت کا مشن واضح انداز میں بیان کر دیا ہے. وہ انسانوں کی بنیادی فکر میں یہ تبدیلی لانا چاہتے تھے کہ ان کے اندر انسانی ہمدردی کا جذبہ اس حد تک پیدا ہو جائے کہ وہ من و تو سے بے نیاز ہو جائے مولانا جانتے تھے کہ یہ کام نظام میں تبدیلی کے نعرے سے نہیں بلکہ مزاج میں تبدیلی پیدا کر نے سے ہوگا. چنانچہ اسی تقریر میں خود ہی فرماتے ہیں کہ..
پیغمبر انسان کے اندر تبدیلی پیدا کر تے ہیں. وہ نظام بدلنے کی اتنی کوشش نہیں کرتے جتنا مزاج بدلنے کی کوشش کر تے ہیں.
اسی کے ساتھ ساتھ وہ لوگوں کو یہ بھی ذہن نشین کراتے رہے کہ کوئی ان کا پالنہار ہے. کوئی ان کا نگراں ہے. جو ان کی تمام حرکات و سکنات کو دیکھ رہا ہے. اور اس سے کوئی چیز مخفی نہیں. یہی ایمان کا پیغام ہے اور یہی پیغمبروں کی تعلیم کا خلاصہ،
پیغمبروں نے انسانوں کو انسان بنانے کی کوشش کی انہوں نے اسے ایمانی انجکشن دیا اور کہا کہ اے بھولے ہوئے انسان اپنے پیدا کرنے والے کو پہچان. اور سوتے جاگتے چلتے پھرتے اسے نگراں مان.
مولانا علی میاں نے جہاں انسانیت کے پیغام کو عام کرنے کی خاطر اور بلا تفریق مذہب و ملت سبھی سبھی فرقوں کے افراد کو اس مشن سے جوڑنے کی کوشش کی. وہیں وہ مسلمانوں کے اجتماعات میں مسلمانوں کے خواص و عوام کو بھی دعوت دیتے رہے. کہ وہ اپنے فریضہ کو پہچانیں. اور اسلام کی تعلیمات کو عام کریں. اسلام کی بنیادی تعلیم یہ ہے کہ انسان قدرت کا شاہکار ہے. اور اس دنیا کے باغ کا سب سے حسین پھول،،
اس کے لئے انہوں نے قرآنی آیات سے اور احادیث نبویہ سے ثبوت فراہم کئے. اور بتایا کہ انسان کو زندہ رہنے کا حق اسکا دستوری حق ہے..
پیام انسانیت کے اسٹیج سے انہوں نے اسلامی تعلیمات کو حسن تدبیر کے ساتھ سامعین تک اس انداز میں پہونچایا کہ مجمع خواہ کیسا ہی ہو ان کے اس طرز استدلال سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکا. چنانچہ آپ نے ایک موقع پر فرمایا..
انسانیت کی پونجی مٹ رہی ہے ہم ایک صدا لگانے آئے ہیں حق کی صدا. دنیا اس صدا سے نا مانوس ہے. مگر ہم دنیا سے مایوس نہیں. انسانوں کے پاس اب بھی ضمیر ہے یہ ضمیر مردہ نہیں ہوا اس پر گردو غبار آگیا ہے. اگر وہ گردو غبار جھاڑ دیا جائے اور اس کو آلودگی سے صاف کر دیا جائے تو اب بھی اس کی گنجائش ہے کہ وہ حق کو قبول کرے اور اس میں ایمانی شعور پیدا ہو..
جاری
ماخوذ مولانا سید ابو الحسن
علی ندوی رحمۃاللہ علیہ
افکار و آثار
احقر محمد شمیم
مدرسہ دارالعلوم
حسینیہ بوریولی
ممبئی
No comments:
Post a Comment