Thursday, 29 October 2015

تقدیر

������تقدیر ������

نااہل کو حاصل ہے کبھی قوت و جبروت ��

ہے خوار زمانے میں کبھی جو ہر ذاتی ��

شاید کوئی منطق ہو نہاں اس کے عمل میں ��

تقدیر نہیں تابع منطق نظر آتی ��

ہاں ایک حقیقت ہے کہ معلوم ہے سب کو ��

تاریخ امم جس کو نہیں ہم سے چھپاتی ��

ہر لحظہ ہے قوموں کے عمل پر نظر اس کی ��

براں صفت تیغ دو پیکر نظر اس کی ������

مطلب :عام طور پر یہ دیکھا گیا ہے کہ ایسے لوگ جو نالائق ہوتے ہیں. اور ان میں کوئی کوئی ذاتی صلاحیت نہیں ہوتی طاقت عظمت اور ہیبت کے مالک بن جاتے ہیں. اور حکومت کے عہدوں تک پہنچ جاتے ہیں. اس کے برعکس یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ جو لوگ ذاتی قابلیت رکھتے ہیں اور اللہ نے جنہیں ذاتی صلاحیتیں عطا کی ہو ئی ہوتی ہیں وہ زمانے میں ذلیل و خوار دکھائی دیتے ہیں. یہ تقدیر کے متعلق ایک عام نقطہ نظر ہے جو علامہ نے اس شعر میں پیش کیا ہے
2....نا اہل کے کامیاب اور اہل کے ناکام ہونے کے پیچھے شاید کوئی علم معقول یا دلیل کی بات پوشیدہ ہو لیکن میرے خیال میں تقدیر جو ہے وہ منطق.. علم معقول.. کے زیر فرمان نظر نہیں آتی َ. اس کا معاملہ ہی اور ہے

3...اقبال نے دوسرے شعر میں یہ بات بیان کی ہے کہ شاید اہل اور نا اہل کی تقدیر میں کوئی منطق چھپی ہوئی ہو لیکن اس تیسرے شعر میں کہتے ہیں کہ حقیقت اس کے برعکس ہے جو سب کو معلوم ہے اور یہ حقیقت قوموں کے عروج و زوال کی تاریخ سے صاف ظاہر ہے. جو قومیں ہمت سے کام لیتی ہیں اور با عمل ہوتی ہیں وہ قوت اور جبروت حاصل کر لیتی ہیں اور جو قومیں عمل سے محروم ہو تی ہیں وہ ذلیل و خوار ہو جاتی ہیں. یہ بات اقوام کی تاریخ سے بالکل عیاں ہے.

4...علامہ اقبال نے اس شعر میں تقدیر کا صحیح مفہوم بتاتے ہوئے کہا ہے کہ تقدیر ہر لمحہ قوموں کے اعمال پر نظر رکھتی ہے. تقدیر دودھاری تلوار کی مانند ہے جو اہل عمل کو کامیابی سے ہمکنار کرتی ہے اور بے عملوں کو ناکامی کا منہ دکھاتی ہے. اقبال کے نزدیک تقدیر کا وہ مفہوم جو عوام کے ذہن میں ہے کہ نا اہل پھلتے پھولتے ہیں اور اہل خوار نظر آتے ہیں بلکل غلط ہے. تقدیر بندوں کے اپنے اعمال کے نتیجے میں بنتی ہے.. ❄ماخوذ ضرب کلیم❄

احقر شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی ������

No comments:

Post a Comment