Thursday, 21 January 2016

سوچ

سوچ

انساں کی ایک سوچ ہوتی ہے جو اسے خیر کی طرف لے جاتی ہے اور ایک سوچ ایسی ہوتی ہے جو اسے شر کی طرف لے جاتی ہے. جس کی سوچ اچھی ہوتی ہے اللہ رب العزت اس سے کام لے لیتے ہیں. کبھی کبھی انسان ایک دوسرے کے بارے میں اچھی سوچ نہیں رکھتا. لیکن جس کے بارے میں اچھی سوچ نہیں تھی شاید یہ اس کی غلط فہمی تھی کیونکہ اللہ دلوں کے بھید کو جاننے والا ہے اور رب العالمین جس سے دنیا میں خدمت خلق کا کام لے لیں. وہ غلط سوچ والا ہو ہی نہیں سکتا. چہ جائیکہ بشری نگاہ سے دیکھنے میں غلطی ہمیں نظر آرہی ہو. یہ بھی ہو سکتا ہے یہ ہماری غلط سوچ ہو. کیونکہ انسان جب کسی کے بارے میں غلط سوچ رکھتا ہے تو اس کی اچھائیاں کو بھی غلط نگاہ سے دیکھتا ہے اور یہی اس کی غلط سوچ کا نتیجہ ہے

جب کہ ہمیں یہ تعلیم دی گئی ہے کہ.. اچھا گمان رکھنا بہترین عبادت ہے.
آج معاشرے میں جو بگاڑ پیدا ہو رہا ہے لوگ ایک دوسرے سے کینہ. حسد. جلن رکھتے یہ ہماری گندی سوچ کا نتیجہ ہے
اور جس کی سوچ اچھی ہوتی ہے اس کے دل میں محبتیں ہی محبتیں بھری ہوئی رہتی ہیں اس شخص کی وجہ سے معاشرے کا ماحول اچھا ہوتا ہے. اور جب اچھی سوچ دھیرے دھیرے سبھی لوگوں کے اندر سرایت کر جاتی تو لوگ جہاں ایسے لوگ ہوتے ہیں اس کی مثال دیتے ہیں. دیکھو فلاں جگہ کے لوگ کتنے اچھے ہیں ان کی سوچ کتنی اچھی ہے ان کا کام کتنا اچھا ہے

حقیر و فقیر نے چند دنوں پہلے ایک تحریر ارسال کی تھی جو گاؤں کے    تعلق سے تھی وہاں دیکھ کر حیرانی اس بات کی ہوئی کہ ایک صاحب جنہوں نے اپنی بے جا سوچ کا غلط استعمال کر کے سورج کو چراغ دکھانے کی کوشش کر ڈالے بہر حال ہر انسان کی اپنی سوچ ہوتی ہے ہمیں چاہئے کہ ہم اپنی سوچ کو ایسا بنائیں کہ جس سے کسی کی دل آزاری نہ ہو اگر ہماری سوچ اچھی ہو گئی تو ہم جہاں بھی رہیں گے وہاں خوشبو کے مانند ہونگے اور اگر ہماری سوچ غلط ہو رہی ہے تو ناکامیوں کے سوا کچھ بھی ہاتھ نہیں لگنے والا ہے
کچھ احباب ایسے بھی ہوتے ہیں جو غلطیوں کی اصلاح بھی کر دیتے ہیں اور کسی کو معلوم بھی نہیں ہوتا پرسنل پر.. جیسا کہ حقیر کے ساتھ بھی ایسا موقع پیش آیا حضرت مولانا منصور صاحب نے ایک وقت میں حقیر کی پرسنل پر اصلاح فرمائی.. ووٹ.. یہ لفظ احقر نے غلط لکھا تھا یہ مولانا کا بڑکپن تھا اور اچھی سوچ تھی اور اور وطنی محبت تھی کہ پرسنل پر اصلاح کر رہے ہیں

غلطیاں احقر نے اچھے اچھے لوگوں سے املا کی دیکھی ہیں لیکن جس کی سوچ اچھی ہوتی ہے وہ دکھاوا نہیں کرتا مقصد اصلاح ہے اور وہ کچھ اس طرح سے کرتا ہے کہ اصلاح بھی ہو جائے اور سامنے والے کو ذلت نہ اٹھانی پڑے. کسی عالم نے احقر سے یہ بات کہی تھی کہ اگر کوئی شخص تنہائی میں تمہاری اصلاح کر رہا ہے تو خیر خواہ ہے اور اگر مجمع میں کہ رہا ہے تو یہ تمہیں ذلیل و خوار کرنے کی کوشش کر رہا ہے. انسان کی جیسی سوچ ہوتی ہے ویسے ہی اس کے افعال سے کر دار سے اچھائیاں برائیاں خود بخود ظاہر ہو جاتی. احباب میں محفل گروپ پر دیکھ رہا تھا ایک لفظ.. سوچ کا آگیا. جس کو لیکر چند الفاظ احقر نے تحریر کر دئیے ہیں. لکھنے میں جو کمی کوتاہی ہوگی اس کی معافی چاہتا ہوں

دعا ہے کہ اللہ رب العزت ہماری سوچ کو اچھا بنادے
اور ہمیں مل جل کر رہنے کی توفیق عطا فرمائے

احقر محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی

No comments:

Post a Comment