🌱ہماری غفلت کے مضر اثرات 🌱
کل جناب نصیرالدین صاحب موضع کرہی ضلع سنت کبیر نگر یوپی. نے ایک والپیپر بھیجا جو نیوز پیپر کی کٹنگ تھا اس میں جو بیان دیا ہے جناب مہتاب احمد عرف لڈو نے جو کہ ضلع پنچایت کے رکن ہیں. خاص ہمارے گاؤں کے ہیں جناب نے بہت قیمتی آب زر سے لکھ کر اس پر عمل کرنے والی بات کہی ہے. نکاح سنت نبوی کے ساتھ ساتھ سماجی تقاضہ بھی ہے اسے آسان بنانے کی ضرورت ہے.
جناب والا جب سے عہدہ سنبھالے ہیں ان کے دل میں واقعی میں ایک تڑپ ہے کہ میں قوم و ملت کے لئے کچھ اچھے کام کرجاؤں. اور الحمدللہ وہ بڑی حسن و خوبی کے ساتھ اپنے فرائض انجام دے رہے ہیں اللہ رب العزت ان کی خدمات کو قبول فرمائے آمین.
احباب آج معاشرے میں نکاح کو اتنا مشکل بنادیا گیا ہے کہ زنا کرنا آسان ہو گیا اور نکاح کرنا مشکل ہو گیا. نکاح کرنا حقیقت میں آسان تھا اور ہے. لیکن اس میں جاہلیت کے دو وائرس گھس گئے ہیں جنہوں نے نکاح کو مشکل بنادیا.
(1)جہیز.. جہیز کی وبا نے ایسا جڑ پکڑ لیا ہے کہ بیس پچیس برس قبل. کچھ سامان. برتن. چارپائی. اناج. سائیکل. دینے سے کام چل جاتا تھا. لیکن پچھلے آٹھ دس سالوں سے سائیکل کی جگہ موٹر سائیکل نے لے لی. اور اس وقت فور ویلر کا زمانہ آگیا ہے. جہیز میں فور ویلر دی جارہی ہے. اور اگر قوم و ملت کے دانشور حضرات نے اس جانب توجہ نہیں فرمائی اور یہ سلسلہ اسی طرح ترقی کرتا رہا تو نسلوں کو. ٹرین. ہیلی کاپٹر. ہوائی جہاز. دینے پڑیں گے کیونکہ پندرہ سے بیس سال بعد ترقی جب ہوگی تو جہیز میں بھی ترقی ہوگی اس وقت فور ویلر بہت پرانی بات ہو جائے گی. اس وقت اگر فکر نہ کی گئی تو نسلوں کو اس کا جو خمیازہ بھگتنا پڑے گا اس کی تلافی ناممکن ہو جائے گی.
نکاح جبھی آسان ہو سکتا ہے جب اس میں سے حرص و ہوس کے جہیز کو نکال دیا جائے. نام ونموو شہرت کو نکال دیا جائے. خصوصًا لڑکے والوں کے لئے یہ کام بہت آسان ہے پہل قدمی لڑکے والوں کی طرف سے ہوجائے تو جہیز کا مسئلہ ختم ہو جائے. کیونکہ ہندوستان میں خصوصاً لڑکے والوں کی ہی سنی جاتی ہے. ہندوستان میں ایسے مقامات بھی ہیں جہاں پر جہیز کے مہلک وائرس نہیں پائے جاتے ہیں وہاں کے حضرات قسمت کے دھنی ہیں.
دوسرا وائرس جس نے نکاح کو مشکل بنا رکھا ہے وہ ہے بارات. یہ ہندوؤں سے ورثہ میں ملی ہے جس پر مسلمان پابندی سے عمل کررہے ہیں. کیونکہ مسئلہ پیٹ کا ہے. زبردستی کا مہمان بننے کا ہے. سنت طریقہ تو ولیمہ ہے جو لڑکے والے کے ذمہ ہے. لڑکی والوں کے یہاں کھانا ہندوؤں کا طریقہ ہے. جسے مسلمانوں نے اپنالیا. پچاس. سو. دوسو. تین سو. توبہ توبہ استغفراللہ. یہ باراتی ہیں.
جب ہم اپنے اسلاف کی تاریخ کو پڑھتے ہیں تو ہمیں سید احمد شہید رحمۃاللہ علیہ کی لشکر میں حضرت مولانا اسماعیل شہید رحمۃاللہ علیہ. دوسو. تین سو. کے مجاہدین کے ساتھ جہاد کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. اور جب ہم سلطان صلاح الدین ایوبی رحمۃاللہ علیہ کی داستان کو پڑھتے ہیں تو مجاہدین چھاپہ مارتے ہوئے نظر آتے ہیں. جب ہم صحابہ کرام کی زندگی کو دیکھتے ہیں تو کفار کے ساتھ جنگ کرتے ہوئے نظر آتے ہیں. آج دیکھنے کو تو ملتا ہے. کہ دوسو. تین سو. کا قافلہ لشکر جاتا ہے. لیکن صرف ناجائز طور پر کھانے کے لئے. لڑکی والوں کا کھانا اتنی بڑی تعداد میں جاکر. یہ ہندووانا رسم و رواج ہے اور اسلام سے اس کا دور دور کا واسطہ نہیں ہے.
اگر ہم ارادہ کر لیں تو یہ رسم و رواج ختم ہو سکتی ہے حقیر و فقیر نے ارادہ کیا تقریبا پندرہ سال کا عرصہ گزر گیا اور بارات نہیں گیا اور ان شاءاللہ پوری زندگی نہیں جانے کا پختہ ارادہ ہے.
احباب ہماری غفلت کے مضر اثرات ہماری آنے والی نسلوں پر مرتب ہوں اس سے پہلے اس بیماری کو اس وائرس کو ختم کرنا ضروری ہے
جب ہم ان دونوں وائرس کو ختم کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے تو نکاح کرنا آسان اور زنا کرنا مشکل ہو جائے گا
جو حضرات نکاح کو آسان بنانے کی جس طرح سے بھی کوشش اور محنت کر رہے ہیں اللہ رب العزت ان کی کوششوں اور محنتوں کو قبول فرما کر ثواب دارین سے مالامال فرمائے اور اپنی شایان شان اجر عظیم عطا فرمائے آمین ثم آمین.
احباب لکھنے میں جو غلطی ہو گی اس کی معافی چاہتا ہوں
احقر محمد شمیم مدرسہ دارالعلوم حسینیہ بوریولی ممبئی 🌹
No comments:
Post a Comment