Thursday, 12 May 2016

تین رکعت وتر کا ثبوت

🌺تین رکعات وتر کا  ۔ابتدائے اسلام میں نماز میں سلام کلام کی بھی گنجائش تھی اور وتر نفل تھے اس لئے بعض اوقات آنحضرتؐ  تین وتروں میں دو رکعت کے بعد سلام پھیردیتے اور ایک وتر علیحدہ پڑھ لیتے ۔دیکھنے والے اس کو دو طرح روایت کر دیتے صرف آخری رکعت کا خیال کر کے اسے ایک  رکعت ہی روایت کر دیتے اور بعض یوں بیان کر دیتے کہ تین وتر دو سلاموں سے ادا فرمائے لیکن جیسے باقی نمازوں میں سلام کلام جائز نہیں رہا ایسے وتر کے درمیان بھی سلام کلام جائز نہیں رہا  1۔۔۔۔۔عن عائشہؓ ان رسول الله ؐ  کان یسلم فی کعتی الوتر ( موطا امام محمد ۔ ص ۔ 151 ۔۔۔نسائی ۔۔ج۔  1 .ص۔ 248 ) حضرت عائشہؓ  روایت فرماتی ہیں کہ آنحضرتؐ  وتر کی پہلی دو رکعتوں میں سلام نہیں پھیرتے تھے   2۔۔۔۔اور اسی طریقے پر عمل آخر تک جاری رہا ۔چنانچہ حضرت صدیق اکبرؓ کے دفن سے جب فارغ ہوئے تو حضرت عمرؓ  نے فرمایا  میں نے ابھی وتر نہیں پڑھے پس وہ وتر کی نماز کے لئے کھڑے ہوئے اور  حاضرین نے بھی ان کے پیچھے صف باندھ لی تو حضرت مسور بن مخزمہؓ  فرماتے ہیں ۔۔۔فصلی بنا ثلاث رکعات لم یسلم الا فی آخر ھن ۔۔۔۔۔یعنی حضرت عمرؓ  نے ہمیں تین رکعتیں وتر پڑھائی جن میں صرف تیسری رکعت پر سلام پھیرا (طحاوی ۔۔ج۔ 1 . ص۔ 202 ۔۔۔۔عبدالرزاق ۔ ج۔ 3 ۔ص ۔ 120 ۔۔۔۔ابن ابی شیبہ ۔۔ج۔ 1 . ص۔ 293   ) 3۔۔۔۔۔یہ بات پہلے بھی ذکر ہو چکی ہے دور فاروقیؓ  ۔۔دور عثمانیؓ  ۔۔دور مرتضوی ؓ  ۔۔میں جیسے بیس رکعت تراویح پر اجماع ہوا اسی طرح تین وتر پر بھی اجماع ہوا ۔ حضرت ابی بن کعبؓ  ۔۔۔۔ امام التراویح کان یوتر بثلاث لا یسلم الا فی الثلاثہ مثل المغرب (عبدالرزاق ۔ج۔ 3 ۔ ص ۔ 26  )  تین رکعت وتر پڑھا کرتے اور دوسری رکعت پر سلام نہیں پھیرتے تھے ۔بلکہ مغرب کی نماز کی طرح تیسری رکعت پر ہی سلام پھیرتے تھے یعنی اجماع اسی بات پر ہوا کہ وتر تین رکعت دو التحیات اور ایک سلام سے مثل مغرب کے ہیں 4۔۔۔۔۔حضرت ابو اسحاق فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ بن مسعودؓ  اور حضرت علیؓ  کے (ہزاروں  ) اصحاب   (تین وتر پڑھتے تھے  )  اور دو رکعتوں کے بعد سلام نہیں پھیرتے تھے 5۔۔۔۔حضرت ابو الزناد فرماتے ہیں کہ مدینہ منورہ کے ساتوں فقہاء اس پر متفق تھے کہ وتر تین رکعتیں ہیں اور سلام صرف تیسری رکعت کے بعد ہے اور اس پر حضرت عمر بن عبدالعزیز نے فیصلہ فرمایا (طحاوی ۔۔ج۔ 1 . ص۔ 203 . 204  ) 6۔۔۔۔حضرت امام حسن بصری رحمہ الله فرماتے ہیں ۔۔۔۔۔اجمع المسلمون ان الوتر ثلاث لا یسلم الا فی آخر ھن (ابن ابی شیبہ ۔۔ج۔ 2 .ص۔ 294  )  سب مسلمانوں کا اجماع ہے کہ وتر کی تین رکعتیں ہیں جن کے صرف آخر میں سلام پھیرا جاتا ہے 👈ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوا کہ سب مسلمانوں کا اجماع ہے کہ ان ہی احادیث پر عمل جاری رہا اور دو رکعت کے بعد سلام پھیرنے پر عمل تو کیا جاری رہتا ۔۔صرف حدیث  ہی روایت  کی تو شاگرد سن کر کہنے لگا کہ ۔۔۔۔۔انی لا اخاف ان یقول الناس ھی البتیراء ۔۔۔میں ڈرتا ہوں کہ لوگ اس طریقے کو دم کٹی نماز کہیں ( طحاوی ۔۔ج۔ 1 . ص۔ 192 )   ظاہر ہے کہ اس وقت لوگ یا  صحابہؓ تھے یا تابعین ۔ان کا اس طریقے کو دم کٹی نماز کہنا اس حدیث کے متروک العمل ہونے کی دلیل ہے ۔جیسا کوئی شخص کھڑے ہوکر پیشاب کرنے کا ذکر کرتا تو لوگ اعتراض کرتے افسوس کہ غیر مقلدین  نے احناف کی ضد میں ان احادیث پر عمل چھوڑ رکھا ہے جن پر بلا نکیر عمل جاری رہا اور شاذ روایات کو اپنانا اپن مشن بنا لیا ہے   🌺🌺🌺🌺🌺🌺✍

No comments:

Post a Comment