[09/05 05:40] +91 99304 63176: شب براءت اکابرین امت کی نظر میں:
1: جلیل القدر تابعی حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
مَا مِنْ لَيْلَةٍ بَعْدَ لَيْلَةِ الْقَدْرِ أَفْضَلُ مِنْ لَيْلَةِ النِّصْفِ من شَعْبَانَ (لطائف المعارف: ابن رجب الحنبلی: ص 151 )
ترجمہ: لیلۃ القدر کے بعد شعبان کی پندرھویں رات سے زیادہ افضل کوئی رات نہیں۔
2: علامہ ابن رجب الحنبلی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
لَيْلَةِ النِّصْفِ من شَعْبَانَ كَانَ التَّابِعُوْنَ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ كَخَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ وَمَكْحُوْلٍ وَ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ وَ غَيْرِهِمْ ،يُعَظِّمُوْنَهَا وَ يَجْتَهِدُوْنَ فِيْهَا فِي الْعِبَادَةِ وَ عَنْهُمْ أَخَذَالنَّاسُ فَضْلَهَا وَ تَعْظِيْمَهَا۔
(لطائف المعارف: ابن رجب الحنبلی: ص 151 )
ترجمہ:اہلِ شام کے تابعین حضرات مثلاً امام خالد بن معدان، امام مکحول، امام لقمان بن عامر وغیرہ شعبان کی پندرھویں رات کی تعظیم کرتے تھےاور اس رات خوب محنت سے عبادت فرماتے تھے۔ انہی حضرات سے لوگوں نے شبِ براءت کی فضیلت کو لیا ہے۔
3:امام محمد بن ادریس الشافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَبَلَغَنَا أَنَّهُ كان يُقَالُ إنَّ الدُّعَاءَ يُسْتَجَابُ في خَمْسِ لَيَالٍ في لَيْلَةِ الْجُمُعَةِ وَلَيْلَةِ الْأَضْحَى وَلَيْلَةِ الْفِطْرِ وَأَوَّلِ لَيْلَةٍ من رَجَبٍ وَلَيْلَةِ النِّصْفِ من شَعْبَانَ وأنا أَسْتَحِبُّ كُلَّ ما حُكِيَتْ في هذه اللَّيَالِيِ من غَيْرِ أَنْ يَكُونَ فَرْضًا
(کتاب الام للشافعی: ج1 ص 231 العبادة لیلۃ العيدين، السنن الکبریٰ للبیہقی: ج3، ص 319 )
ترجمہ: ہمیں یہ بات پہنچی ہےکہا جاتا تھا کہ پانچ راتوں میں دعا[زیادہ] قبول ہوتی ہے۔۱: جمعہ کی رات، ۲:عید الاضحیٰ کی رات،۳: عید الفطر کی رات، ۴:رجب کی پہلی رات، ۵:نصف شعبان کی رات۔ میں نے ان راتوں کے متعلق جو بیان کیا ہے اسے مستحب سمجھتا ہوں فرض نہیں سمجھتا۔
4:علامہ زین الدین بن ابراہیم الشہیربابن نجیم المصری الحنفی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
وَمِنْ الْمَنْدُوبَاتِ إحْيَاءُ لَيَالِي الْعَشْرِ من رَمَضَانَ وَلَيْلَتَيْ الْعِيدَيْنِ وَلَيَالِي عَشْرِ ذِي الْحِجَّةِ وَلَيْلَةِ النِّصْفِ من شَعْبَانَ كما وَرَدَتْ بِهِ الْأَحَادِيثُ وَذَكَرَهَا في التَّرْغِيبِ وَالتَّرْهِيبِ مُفَصَّلَةً
(البحر الرائق لابن نجیم: ج2، ص56)
ترجمہ:رمضان کی آخری دس راتوں میں، عیدین کی راتوں میں، ذوالحجہ کی دس راتوں میں، شعبان کی پندرھویں رات میں شب بیداری کرنا مستحبات میں سے ہے جیسا کہ احادیث میں آیا ہےاور علامہ منذری رحمہ اللہ نے انہیں ترغیب و الترہیب میں مفصلاً بیان کیا ہے۔
5:خاتمۃ المحدثین حضرت علامہ مولانا محمد انور شاہ الکشمیری رحمہ ا للہ فرماتے ہیں:
اِنَّ هٰذِهِ اللَّيْلَةَ لَيْلَةُ الْبَرَاءَةِ وَصَحَّ الرِّوَايَاتُ فِي فَضّلِ لَيْلَةِ الْبَرَاءَةِ
(العرف الشذی: ج2 ص 250 )
ترجمہ: یہ رات”لیلۃ البراءت“ ہے اور اس لیلۃ البراءت کی فضیلت کے بارے میں روایات صحیح ہیں۔
6: حکیم الامت، مجدد الملت حضرت مولانا محمد اشرف علی تھانوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”شبِ براءت کی اتنی اصل ہے کہ پندھویں رات اور پندرھواں دن اس مہینے کا بہت بزرگی اور برکت کا ہے ۔ “(بہشتی زیور:حصہ ششم، ص58)
7
[09/05 16:24] +91 99304 63176: 🍃 شب برات کی فضیلت🍃
از ۔۔۔۔۔ شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مفتی تقی عثمانی صاحب
نے شب برات کی احادیث کے متعلق لکھا کہ" شب ِ برات کے بارے میں یہ کہنا بالکل غلط ہے
کہ اس کی کوئی فضیلت حدیث سے ثابت نہیں ،
حقیقت یہ ہے کہ دس صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے احادیث مروی ہیں جن میں نبی کریم ﷺ نے اس رات کی فضیلت بیان فرمائی،
ان میں سے بعض احادیث سند کے اعتبار سے بیشک کچھ کمزور ہیں اور ان احادیث کے کمزور ہونے کی وجہ سے بعض علماءنے یہ کہہ دیا کہ اس رات کی فضیلت بے اصل ہے،
لیکن حضرات محدثین اور فقہاءکا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک روایت سند کے اعتبار سے کمزور ہو لیکن اس کی تایید بہت سی احادیث سے ہوجائے تو اسکی کمزوری دور ہوجاتی ہے،
اور جیساکہ میں نے عرض کیا کہ دس صحابہ کرام سے اسکی فضیلت میں روایات موجود ہیں لہٰذا جس رات کی فضیلت میں دس صحابہ کرام سے روایات مروی ہوں اس کو بے بنیاد اور بے اصل کہنا بہت غلط ہے۔
امت مسلمہ کے جو خیرالقرون ہیں یعنی صحابہ کرام کا دور ، تابعین کادور، تبع تابعین کادور، اس میں بھی اس رات کی فضیلت سے فائدہ اٹھانے کا اہتمام کیا جاتا رہا ہے،لوگ اس رات میں عبادت کا خصوصی اہتمام کرتے رہے ہیں،
لہٰذا اس کو بدعت کہنا، یا بے بنیاد اور بے اصل کہنا درست نہیں ، صحیح بات یہی ہے کہ یہ فضیلت والی رات ہے، اس رات میں عبادت کرنا باعث ِ اجر و ثواب ہے اور اسکی خصوصی اہمیت ہے۔
"اس سے تین باتیں واضح ہورہی ہیں
۔1۔ -شب برات کے متعلق احادیث ضعیف لیکن کئی سندوں سے مروی ہیں ایسی حدیث کے متعلق اوپر بیان کیا جاچکا
۔2- یہ احادیث نا عقائد کے باب میں استعمال ہورہی ہیں اور نا شریعت کے کسی حکم کے خلاف ہیں۔
3- اس رات کی فضیلت کے متعلق نہ صرف اقوال صحابہ بلکہ اعمال صحابہ بھی موجود ہیں۔ایسی احادیث کا انکار کرنا یا ان سے ثابت فضیلت کا انکار کرنا دونوں باتیں زیادتی ہی ہے۔ رسالہ
'' شبِ براء ت کی حقیقت"
No comments:
Post a Comment