Thursday, 12 May 2016

فرض نماز کے بعد دعا بدعت نہیں

فرض نماز کے بعد دعا کرنا بدعت نہیں ہے

حضرت مولانا محمد شفیع قاسمی بہٹکلی

واٹس آپ کے مختلف گروپوں میں سلفی حضرات اپنے مسلک کی ترجمانی کرتے رہتے ہیں. کچہ دنوں سے شیخ منظور الہی نامی شخص کے مضامین تین طلاق، تقلید مجتہد اور اجتماعی دعا بعد فرض نماز کو شائع کر رہے ہیں اور خوش ہو رہے ہیں کہ ان کے لئے یہ نئی دلیل ہے حالانکہ یہ سب پرانی باتیں اور اس کا جواب مخلتف علماء دیتے رہے ہیں. کچہ دونوں پہلے اجتماعی دعا کے سلسلہ میں ان کا ایک بیان واٹس آپ میں سننے کو ملا. پہر ایک مضمون اجتماعی دعا بعد فرض نماز پڑہنے کو ملا. تعجب ہوا کہ سلفی حضرات کی روایت کے خلاف کسی حدیث کو پیش کرنے کے بجائے علماء کے اقوال کو پیش کئے ہیں. ان کے زعم باطل کی اصلاح کے لئے چند علماء کے اقوال پیش کئے جارہے ہیں اس سے معلوم ہوگا کہ فرض نماز کے بعد دعا کرنا بدعت نہیں ہے.

سلفی عالم شیخ عبد الرحمن مبارکپوری لکہتے ہیں:
جان لو فرض نماز کے بعد اجتماعی دعا کے سلسلہ میں اہل حدیث علماء کی دو رائیں ہیں. (1) بعض علماء جائز کہتے ہیں اور (2) بعض علماء ناجائز اور بدعت کہتے ہیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث صحیح سے ثابت نہیں مانتے. جو لوگ اس کو جائز کہتے ہیں وہ ان پانچ حدیثوں سے استدلال کرتے ہیں....نیز وہ ہاتہ اٹہا کر دعا مانگنے کو بہی جائز کہتے ہیں اسلئے کہ فرض نماز کے بعد دعا مستحب اور پسندہ عمل ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے فرض نمازوں کے بعد دعا ثابت ہے اور ہاتہ اٹہانا دعا کے آداب میں سے ہے. بہت سے مواقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دعا کے لئے ہاتہ اٹہانا ثابت ہے اور نماز کے بعد ہاتہ اٹہانے کی ممانعت بہی نہیں آئی ہے بلکہ ہاتہ اٹہانے کا ثبوت بعض ضعیف حدیثوں سے بہی معلوم ہوتا ہے. ان تمام امور کے ثابت ہونے کے بعد فرض نمازوں کے بعد ہاتہ اٹہا کر دعا مانگنا کسی طرح بدعت نہیں ہو سکتا بلکہ جائز ہوگا اور کرنے والوں پر کوئی اعتراض بہی نہیں ہوگا. (تحفة الاحوذى)

امام نووی رحمہ اللہ لکہتے ہیں: نماز کے بعد امام، مقتدی، منفرد کا ذکر ودعا کرنا مستحب ہے اور امام لئے مستحب ہے کہ وہ مقتدیوں کی طرف رخ کرکے دعا مانگیں. (المجموع)

علامہ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ لکہتے ہیں: جو لوگ نماز کے بعد ذکر ودعا کا انکار کرتے ہیں ان کا قول مردود ہے اور جو لوگ دبر کل صلاة کا مطلب سلام سے قبل تشہد کی دعا مراد لیتے ہیں ان کی خدمت میں عرض ہے کہ تمام علماء کے نزدیک ذکر دبر کل صلاة كا مطلب سلام کے بعد کا ذکر ہے.(فتح الباری)

علامہ انور شاہ کشمیری رحمہ اللہ کے شاگرد وداماد حضرت مولانا سید احمد رضا بجنوری رحمہ اللہ لکہتے ہیں:
روایات صحیحہ سے آج کل کی مروجہ نماز کے بعد کی اجتماعی دعاوں کا ثبوت یقینی طور سے ہو چکا ہے اسی لئے ہمارے فقہاء نے اس کو ذکر کیا ہے جیسا کہ نور الایضاح اور اس کی شرح مراقی الفلاح میں ہے.(معارف السنن) ہاتہ اٹہاکر اجتماعی دعا کا ثبوت بہی حضور علیہ السلام سے دو بار نوافل کے بعد ثابت ہوا ہے، ایک تو حدیث مسلم شریف سے بیت ام سلیم میں کہ آپ نے سب کے ساتہ نماز کے بعد دعا کی. (فتح الملہم) امام بخاری نے بہی اس واقعہ کا ذکر مختصر پانچ جگہ کیا ہے دوسری نماز استسقاء کے بعد(معارف السنن) یہاں حضرت شاہ صاحب(علامہ انور شاہ کشمیری) کے ارشاد کو پہر تازہ کرلیں کہ حضور علیہ السلام سے کسی فعل کے لئے خواہ قولی ثبوت ہو یا فعلی دونوں برابر ہیں اور کسی ایسے ثابت شدہ عمل کو بدعت ہرگز نہیں کہہ سکتے. یہ ضرور ہے کہ کسی مستحب کو واجب نہ سمجہے اور ہر حکم کو اپنے درجہ تک رکہے اور اگر کوئی بات حضور علیہ السلام کے عمل میں کمی کے ساتہ بہی ثابت ہے تو وہ کافی ہے تاکہ امت اس کو بہی اپنا معمول بنا کر اجر عظیم حاصل کرتی رہے. یہی اجتماعی دعا بعد الصلاة کا مسئلہ ہے اوپر کی ساری تفصیل ہم نے اس لئے کی اس کی اہمیت اور فضیلت واضح ہو جائے جبکہ آج علامہ ابن تیمیہ اور ابن القیم کے تشدد کی وجہ سے حرمین شریفین کی نماز اس بڑی فضیلت سے محروم ہوچکی ہیں اور آپ نے دیکہا کہ ایک اہل حدیث عالم (شیخ عبد الرحمن مبارکپوری) نے ہی کس طرح ان کے تشدد کو رد کردیا ہے اور حق بات بلا خوف لومة لائم کہدی ہے. جزاء اللہ خیرالخیراء.(انوار الباری اردو شرح صحیح البخاری)

حضرت مولانا یوسف لدہیانوی رحمہ اللہ لکہتے ہیں
فرض نمازوں کے بعد اجتماعی دعا کا معمول خلاف سنت نہیں، خلاف سنت وہ عمل کہلاتا ہے جو شارع علیہ السلام نے خود نہ کیا ہو، اور نہ اس کی ترغیب دی ہو. (آپ کے مسائل اور اس کا حل)

No comments:

Post a Comment