Saturday, 14 May 2016

دلیل بیس رکعت نماز تراویح

[14/05 15:45] ‪+91 99304 63176‬: مسئلہ تراویح پیش خدمت ھے
No 1
امام ببخاری رحمة الله علیہ کے حالات میں یہ  ملتی ھے کہ وہ ۲۰  رکعت تراویح پڑھتے تھے بلکہ اکثر محدثین اور مجتھدین کی سوانح کے مطالعے سے بھی بتہ لگتا ھے کہ وہ ۲۰ رکعت ھی پڑھتے تھے بلکه تمام مجتھدین  امام ابوحنيفه، شافعى، حنبلى اوزاعى ابن مبارك، اسحاق بن راهویہ، امام یوسف وغیرہ حضرات کا فتوی بھی ۲۰ کا هى ھے
البتہ امام مالک کے ۲ قول بیں ۲۰ اور ۳٦ اور اس کے علاوہ جن جن کی روایتیں آپُ نقل کر رھے ھو امام بیھقی وغیرہ  ان میں اکثر کی ۲۰ رکعت پڑھنے کی روایات بھی موجود ھیں اس لئے کہ  مجتھدین اور محدثین حضرت عائشہ رضي الله عنها کی ۸ رکعت والی روایت کو تھجد اور وتر کے باب میں لائے ھیں۔
اس كى سب سے بڑی وجہ یہ ھے کہ اس حدیث میں رمضان آور غیر رمضان کا ذکر ھے اگر صرف رمضان کہا ھوتا توپھر تو اشکال ھی نہیں تھا  تراویح کے باب میں لا سکتے تھے چونکہُ یہاں غیر رمضان کا ذکر بھی آگیا تو اس روایت سے تھجد مراد لیا ھے یا وتر
اس لئے کہ غیر رمضان میں تراویح نہیں پڑھی جاتی۔
تو حضرت عاشہ رضي الله عنها حضورصلى الله عليه وسلم گے ایک ایسے عمل کی خبر دے رھی ھیں جو حضورصلى الله عليه وسلم  صرف رمضان میں نہیں بلکہ پورا سال عمل کرتے تھے۔ تو اس سے تراویح کیسے مرا د لی جا سکتی ھے۔
اس کے علاوہ راوی نے حضرت عائشہ رضي الله عنها سے تعداد نہیں  پوچھی تھی بلکہ حضورصلى الله عليه وسلم کی نماز میں کیفیت دریافت کی تھی ( کیف کانت صلاة الرسول الله )                       
سوچنے کی بات ھے کہ
ایک تابعی کو امھات المومنین سے کیاضرورت تھی کہ تعداد دریافت کرے  کیا وہ تابعی نہیں دیکھرھے تھے کہ  رمضان میں صحابہ کتنی رکعتیں پڑھ رھے ھیں۔ کیا ۳۰،  ۲۵ سال میں خیر القرون کا زمانہ اتنا جلدی بدل گیا تھا۔
بس يهى وجہ ھے ان حضرات نے ۲۰ رکعات پڑھے کو ترجیح دی  ھے۔
ورنہ کوئی سوچ بھی سکتا ھے حضورصلى الله عليه وسلم کے عمل کے خلاف کوئی نیاعمل شروع کردے۔ کیا یہ حضرات بدعت کے مفھوم سے ناواقف تھے ۔
کیا تابعین نے صحابہ کو نہیں دیکھا اور تبع تابعین نے تابعین کو نہیں دیکھاکہ حضورصلى الله عليه وسلم کا عمل کیا ھے۔
ھم دیکھتے ھیں کہ آج کے زمانے میں بھی کمزور سے کمزور ایمان والا مسلمان بھی حضورصلى الله عليه وسلم کے طریقے کے خلاف کسی عمل کو دین سمجھ کر کرنے سے کانپ جاتا ھے
تو اس دور کے مجتھدین و محدثین حضورصلى الله عليه وسلم کا ۸ رکعت کا عمل سامنے آنے بعد بھی  ۲۰ رکعت پڑھنے کی جسارت کر سکتے ھیں ؟ ۔
جبکہ اس دور کے لوگوں کو حضورصلى الله عليه وسلم کی بشارت بھی حاصل تھی ( خیر الناس  قرني ثمه الذین یلونم ثمه الذین یلونھم ) میرے زمانے کے لوگ ( صحابہ) بہترین ھیں پھر ان کے بعد آنے والے(تابعین) اور پھر ان کے بعد آنے والے( تبع تابعین)۔ بخاری ومسلم۔
  اس سے مراد تابعین و تبع تابعین ھیں
جیسے آپ چودوی صدی کے لوگ جوش میں کیسے کہرھے ھو کہ ھمارے امام حضورصلى الله عليه وسلم ھیں ھم کسی امام کے قول کو نہیں دیکینگے ھم حضورصلى الله عليه وسلم کے قول کے مقابلے میں کسی امام کی بات کو نہیں لیتے وغیرہ وغیرہ
تو تابعین تبع تانعین تو آپ سے کروڑوں کناہ حضورصلى الله عليه وسلم کے عمل ہر جان قربان کرنے والے تھے کیا ھم  حضورصلى الله عليه وسلم کی اتباع کی حرس میں ان حضرات کا مقابلہ کر سکتے ھیں جن کو حضورصلى الله عليه وسلم کی بشارت حاصل ھے ۔ اور ائمہ اربع کا شمار یا تو تابعین میں ھوتا ھے یا تبع تابعین میں  جن گو حضورصلى الله عليه وسلم کی بشارت حاصل ھے۔
اس لئے یہ یہ اھل سنت والجماعت کا اصول ھےکہ ائمہ اربع کے اجماعی مسائل میں لب کشائی کی کوئی گنجائش نہیں ھے ۔
اس لئے تابعین تبع تابعین مجتھدین محدثین کے دور میں جن جن مسائل پر اجماع ھو گیا خصوصا ائمہ اربعہ کے دور میں جن چیزوں پر اجماع ھو گیا بس وھی حق ھے اور حق اسی میں دائر ھے چاھے وہ تراویح کی تعداد کا مسئلہ ھو یا ۳ طلاق کے مساہل ھو حق انہی کے فیصلوں میں دائر ھے۔اسی کو سواد اعظم کی اتباع کہتے ھیں  اور ھماری نجات اسی پر عمل کرنے میں ھے ورنہ شیعوں میں اور ھم میں کیا فرق ھ
اب اس سلسلے میں تابعین تبع تابعین کے اقوال پیش خدمت ہیں  
  امام شافعی رحمة الله علیہ فرماتے ھیں جس کو امام ترمزی نے روایت کیا ھے 
قال الإمام الترمذي رحمه الله في سننه (3/169) :

" وَأَكْثَرُ أَهْلِ الْعِلْمِ عَلَى مَا رُوِيَ عَنْ عُمَرَ وَعَلِيٍّ وَغَيْرِهِمَا مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِشْرِينَ رَكْعَةً وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ وَابْنِ الْمُبَارَكِ وَالشَّافِعِيِّ .

وقَالَ الشَّافِعِيُّ وَهَكَذَا أَدْرَكْتُ بِبَلَدِنَا بِمَكَّةَ يُصَلُّونَ عِشْرِينَ رَكْعَةً .

امام ترمذی نے ترمذی شریف رقم طراز ھیں :

اکثر علماء (مجتھدین متقدمین) سے مروی ھے جیسے کہ حضرت عمر،علی رضي الله عنهم اور ان کے علاوہ حضورصلى الله عليه وسلم کے صحابہ سے تراویح کے ۲۰ رکعت ثابت ھیں۔ اور یہ قول امام ثوری ابن مبارک اور امام شافعی رحمة الله علیہم کا ھے۔

اسی طرح امام شافعی رحمة الله علیہ فرماتے ھیں: اور اسی طرح میں نے اپنے شہر  مکة امکرمہ میں لوگوں کو ۲۰ رکعت پڑھتے ھوے پایا ھے۔

اسى طرح علامہ ابن تیمیہ  حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے بیس رکعت پڑھا نے کو ثا بت مانتے ہیں ،چنانچہ لکھتے ہیں:

قد ثبت ان ابی بن کعب کان یقوم بالناس عشرین رکعۃ ویوتر بثلاث فرأی اکثر من العلماء ان ذلک ھو السنۃ لانہ قام بین المہا جر ین والانصار ولم ینکرہ منکر.

(فتاویٰ ابن تیمیہ قدیم ص186/ج1،فتاویٰ ابن تیمیہ ججدیدص112ج23)
ترجمہ: یہ بات ثا بت ہے کہ حضرت ابی بن کعب لوگو ں کو بیس رکعت تراویح اور تین رکعت وتر پڑھاتے تھے۔ اس لئے علماء کی اکثریت کی رائے میں بیس ہی سنت ہیں  کیونکہ حضرت ابی بن کعب نے بیس رکعت مہاجرین اور انصار صحابہ کے سامنے پڑھائی ہیں اور کسی نےبھی(بیس ترا ویح کے سنت ہو نےکا ) انکار نہیں کیا۔
[14/05 15:45] ‪+91 99304 63176‬: No 2
قَالَ الْاِمَامُ الْحَافِظُ الْمُحَدِّثُ اَبُوْبَکْرِ الْبَیْہَقِیُّ اَخْبَرَنَا اَبُوْعَبْدِاللّٰہِ الْحُسَیْنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحُسَیْنِ بْنِ فَنْجَوَیْہِ الدِّیْنَوْرِیُ بِالدَّامَغَانِ ثَنَا اَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ اِسْحَاقَ السَنِیُّ اَنْبَأَ عَبْدُاللّٰہِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِالْعَزِیْزِالْبَغْوِیُّ ثَنَا عَلِیُّ بْنُ الْجَعْدِاَنْبَأَ اِبْنُ اَبِیْ ذِئْبٍ عَنْ یَّزِیْدَ بْنِ خُصَیْفَۃَ عَنِ السَّائِبِ بْنِ یَزِیْدَ قَالَ کَانُوْا یَقُوْمُوْنَ عَلٰی عَہْدِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ فِیْ شَہْرِ رَمَضَانَ بِعِشْرِیْنَ رَکْعَۃً وَاِنْ کَانُوْا لَیَقْرَؤُوْنَ بِالْمِئَیْنِ وَکَانُوْا یَتَوَکَّئُوْنَ عَلٰی عَصِیِّھِمْ فِیْ عَہْدِ عُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ مِنْ شِدَّۃِ الْقِیَامِ۔

امام بيهقى كى روايت :
ترجمہ: حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں رمضان شریف میں بیس رکعات (نماز تراویح) پابندی سے پڑھتے تھے۔ فرماتے ہیں کہ وہ قرآن مجید کی دو سو آیات تلاوت کرتے تھے اور حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے دور میں لوگ قیام کے (لمبا ہونے کی وجہ سے ) اپنی (لاٹھیوں) پر ٹیک لگاتے تھے۔
فائدہ:  اس کی سند بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے۔
اسی طرح امام ابن تیمیہ رحمة الله علیہ  نے شیعوں کے رد میں حضرت عمر رضي الله عنه کے دفاع میں یہ بات لکھی ھے کہ حضرت عمر کا اپنے زمانے میں ابی بن کعب کو  ۲۰ رکعت تراویح جماعت سے کرانے کا حکم اگر غلط ھوتا تو حضرت علی رضي الله عنه اپنی خلافت میں اس کو موقوف کر دیتے۔ حضرت علی کی خلافت میں ۲۰ رکعت تراویح کی جماعت کا جاری رھنا اس بات کی دلیل ھے کہ حضرت عمر رضي الله عنه کا یہ عمل عمل عین سنت کے مطابق تھا۔
[14/05 15:46] ‪+91 99304 63176‬: No 3

اس کے علاوہ وعلماء اھل حدیث کے ۸ رکعت تراویح پر کچھ اقوال پیش خدمت ھیں۔

خود اھل حدیث کے اپنے بڑے بڑے علماء بھی یہ حقیقت کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں کہ رکعات تراویح کی بابت رسول لالہﷺ سے کوئی عدد صحیح روایت سے مروی نہیں ہے۔
٭ص۱۹۷٭
قاضی محمد بن علی شوکانی حضرت عائشہؓ کی مذکورہ روایت سمیت اس موضوع سے متعلق متعدد روایات کے نقل کرنے کے بعد  فرماتے ہیں:۔
ترجمہ:۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس باب میں ذکر کردہ احادیث اور ان جیسی دوسری احادیث سے جو بات ثابت ہوتی ہے وہ صرف رمضان المبارک میں قیام اور اس کو اکیلئے اکیلے یا جماعت کے ساتھ ادا کرنے کی مشروعیت ہے ۔ پس ا س نماز کو جس کا نام تروایح ہے کسی عدد معین پر بند کر دینا (جیسا کہ آج کل کے اھل حدیث  جو صرف آٹھ کو سنت نبوی کہتے ہیں) اور کسی  مخصوص قرأت کے ساتھ خاص کر دینا رسول اللہﷺ کی سنت میں وارد نہیں ہوا۔ (نیل الاوطار جلد۳ص۵۳)
گویا شوکانی صاحب  کے نزدیک رکعات تراویح کی بابت جتنی بھی احادیث ذکر کی جاتی ہیں یا تو ضعیف ہیں یا وہ تروایح کے غیر متعلق ہیں نیز شوکانی نے یہ مطلق سنت کی  نفی کی ہے جو سنت قولی ، سنت فعلی اور سنت تقریری تینوں کو شام ھے لہذا اس سے اھل حدیث حضرات کی تینوں دلیلوں (سنت فعلی، براوایت عائشہؓ بروایت جابرؓ اور سنت تقریری  بروایت ابی بن کعبؓ) کی نفی اور ان کے دعویٰ کا باطل ہونا ثابت ہو گیا ۔
٭ص۱۹۸٭
اس طرح علامہ نواب صدیق حسن خان صاحب (جن کو اھل حدیث چوھوین صدی کے مجدد اور محقق اعظم کے لقب سے پکارتے ہیں) فرماتے ہیں :۔ ولم   یات تعیین العدد فی الروایات الصحیحۃ المرفوعه (الانتقاد الرجیع ص۶۱)
اور تراویح کے عدد  کی تعین صحیح مرفوع روایتوں میں نہیں آئی ۔
نواب صاحب کے صاحبزادے اور مشہور اھل حدیث عالم نواب نور الحسن خان صاحب فرماتے ہیں: وبا لجمله عددے معین در مرفوع نیامدہ (عرف الجادی ص۸۴) خلاصہ یہ ہے کہ رسول اللہﷺ سے کسی مرفوع روایت میں تراویح کا کوئی معین عدد مذکور نہیں ۔
اھل حدیث کے معبر عالم علامہ وحید الزمان اھل حدیث مترجم صحاح ستہ (جن کے بارے میں مشہور اھل حدیث مولانا بدیع الدین شاہ راشدی یہ القاب بیان کرتے ہیں، نواب عالی جناب ، عالم باعمل فقیہ وقت صحب السنۃ وحید  الزمان بن مسیح  الزمان الدکنی (ہدایہ المستفید جلد۱ ص۱۰۴) ) بھی اس حقیقت کو کھلے دل سے تسلیم کرتے ہیں: ولا یتعین لصولۃ لیالی رمضان یعنی تراویح عدد معین (نزل الابرار جلد۱ ص۱۲۶)
ترجمہ:۔ اور  رمضان البارک کی رات کی نماز یعنی تراویح کے لیے (احادیث میں) کوئی عدد معین نہیں ہے۔
مولانا میاں غلام رسول  صاحب  (جواھل حدیث  کے شیخ الکل مولانا نذیر حسن دھلوی کے خصوصی تلامذہ  میں سے ہیں (تاریخ اہل حدیث ص۴۳۳)) نے  حضرت ملا علی قاریؒ کا یہ قول بلا رد و انکار نقل کیا ہے۔ اعلم انه لم یوقت رسو ل اللہﷺ فی التراویح عددا معینا (رسالہ تراویح مع ترجمہ ینابیع ص۴۹،۵۰) جان لو کہ رسول اللہﷺ نے تراویح میں کوئی تعدد مقرر نہیں فرمائی۔
قارئین :۔ محدثین کرام اور علماء اھل حدیث کے ان مذکورہ بالا بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی کہ رسول اللہ ﷺ سے رکعات تراویح کی بابت کوئی معین عدد منقول نہیں۔ لہذا عصر حاضر کےاھل حدیث کا حضرت عائشہؓ کی رویات سے جو در اصل نماز تہجد سے متعلق ہے رکعات تراویح پر استدلال کرنا باطل غلط ہے اور اپنے ہی کابر کی تصریحات کی خلاف ورزی ہے۔

No comments:

Post a Comment