Wednesday 12 October 2016

رب کی بندوں سے محبت کی انتہا اور بندوں کی غلط فہمی

🍃رب کی بندوں سے محبت کی انتہا 🍃

🌿اور بندوں کی غلط فہمی 🌿

اللہ رب العزت اپنے بندوں سے ستر ماؤں سے زیادہ محبت کرتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ جو رب کی نہیں مانتے اور رب کے ساتھ شرک کرتے ہیں. رب العالمین انہیں بھی پالتا ہے یہ اس کے محبت کی انتہا ہے.

مدنی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا. الخلق عیال اللہ.. مخلوق اللہ کا کنبہ ہے.

فاحب الخلق الی اللہ من احسن الی عیالہ.. لہٰذا اللہ تعالٰی کو اپنے بندوں میں سے اچھا وہ لگتا ہے. جو اس کی مخلوق کے ساتھ بھلائی کرنے والا ہو. اللہ کی رضا کے لئے اللہ کے بندوں کے ساتھ بھلائی کرنا یہ اعمال میں سے بہترین عمل ہے.

مدنی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا احب الناس الی اللہ انفعھم للناس.. اللہ رب العزت کو اپنے بندوں میں سب سے زیادہ وہ پسند ہے جو اس کے بندوں کو سب سے زیادہ نفع پہچانے والا ہو.

جب اللہ اپنے بندوں سے اتنی محبت کرتا ہے تو میرا کوئی حق نہیں بنتا کہ میں اللہ کے بندوں سے عناد رکھوں. یہ عناد کے جراثیم کہاں سے انسان کے دلو دماغ میں چھا جاتے ہیں اور اس کے سوچنے کی قوت سلب ہو جاتی ہے.
دراصل بات ایسی ہے کہ انسان کبھی معاشرے اور ماحول کا ستایا ہوا ہوتا ہے اور اس میں اتنی طاقت و قوت نہیں ہوتی ہے کہ معاشرے کو تبدیل کر سکے اور نمونہ پیش کر سکے تو الفاظوں سے ہی اپنے دل کی بھڑاس نکالتا ہے یہ انسانی فطرت ہے.

میرے ایک دوست نے کہا کہ بھائی میرا اب گاؤں سے دل اکتا گیا ہے اور رسم و رواج نے میری حلال کی کمائی کا ستیہ ناس کردیا اور اب وہاں جو حالات آتے ہیں میرے دل میں انسیت پیدا نہیں ہوتی حالانکہ میرے اہل خانہ وہاں موجود ہیں معاشرے کی اصلاح کے لئے کوشاں ہوں لیکن کوئی راہنما نہیں ملتا اس مسئلے کے حل کے لیے جب میں نے میرے ایک دوست سے بات کی جن کی قابلیت سے مجھے امید تھی کہ یہ کوئی عملی قدم اٹھائیں گے اور انہوں نے وعدہ بھی کیا. لیکن آج تک ان کی تحریر اس موضوع پر پڑھنے کو نہیں ملی. اب میں ایسا ناامید ہوا کہ کوہ دشت میں اپنے آپ کو دیکھا تو تنہا پایا اور اور سراب کی حسین وادیاں مجھے اپنی موت کی آغوش میں لینے کے لئے بیتاب تھیں ایسے نازک موقع پر میں نے ایک فیصلہ کیا کہ میرے جو مشکل حالات تھے وہ تو ختم ہو گئے اب خامخاہ اپنے آپ کو ہلاکت میں کیوں ڈالوں اور چلو جیسے سب جیتے ہیں ہم بھی جی لیں گے تو شمیم بھائی میں نے یہ فیصلہ کر لیا ہے آج کے بعد میں اس کے بارے میں فکر نہ کرتے ہوئے اپنے آپ کو بدل لوں گا تو سماج والوں کی سوچ ہوگی وہی میری بھی ہوگی اسلئے میں سماج سے کٹ کر بھی جی نہیں سکتا ہوں.

میں نے میرے دوست کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میرے عزیز آپ نے میری بھی آنکھیں کھول دیں میں بھی کچھ ایسے ہی خیالات کی وادیوں میں بھٹک گیا تھا آپ نے مجھے بچا لیا میرا کوئی حق نہیں بنتا ہے کہ میں ماحول معاشرہ کا بہانہ بنا کر سماج سے درو ہو جاؤں اور لوگوں کے احوال پر تیشہ زنی کروں اور میرے دوست میرے بھی قریب قریب رسم و رواج سے جو بار بار دل پر نشر لگ رہے اب وہ ختم ہو رہے ہیں نسلوں کا خدا حافظ ہے.

پرسوں میں نے اپنے والد محترم سے بات کی تھی تو بتا رہے تھے ابھی گھر سے سائیکل سے نور گنج آیا ہوں اتنی تیز دھوپ ہے کہ سر چکرا گیا اللہ رحم فرمائے

مولانا انظر صاحب مسلسل دعاؤں کے لئے عرض کر رہے ہیں یقیناً یہ وطنی محبت کی علامت ہے اور جیسا کہ میں نے حدیث نقل کی ہے اس کے مصداق نظر آرہے ہیں کہ بندوں سے محبت کی علامت ہے اللہ ان کی کاوشوں کو قبول فرمائے اور یہ محبت ہونا بھی چاہئے کیونکہ جس جگہ پر ہم پیدا ہوئے ہیں اور ہمارا بچپنا گزرا ہے وہاں سے محبت فطری بات ہے

اخیر میں دعا ہے کہ اللہ رب العزت اپنے رحم و کرم سے پیارے آقا صلی اللہ علیہ و سلم کے صدقے میں ایسی رحمت والی بارش کا نزول فرمائے جس سے سبھی حضرات کے تقاضے پورے ہوجائیں.

احقر محمد شمیم

یہ تحریر کچھ خیالی ہے کچھ حقیقت

لکھنے میں جو کمی کوتاہی ہوگی اس کی معافی چاہتا ہوں

No comments:

Post a Comment