Wednesday 12 October 2016

تبلیغی جماعت

🌺  تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی🌺

آج جب کہ مسلمانوں کی صف میں انتشارہے اور ہر سطح پر پست دکھائی دیتے ہیں ان کے اندر اجتماعیت کی ایک بڑی دلیل کے طور پر تبلیغی جماعت نظر آتی ہے۔ یہ مسلمانوں کی سب سے بڑی دینی تحریک ہے جو ساری دنیا میں پھیلی ہوئی ہے۔اس کے ممبران کی تعداد لاکھوں میں نہیں بلکہ کروڑوں میں ہے۔ اس کے چاہنے والوں اور عقیدت مندوں کی جماعت بھارت ، پاکستان اور بنگلہ دیش کے گاؤوں سے لے کر لندن اور نیو یارک تک پھیلی ہوئی ہے۔

اس کے اجتماعات میں جس طرح بنگلہ دیش میں لاکھوں افراد شریک ہوتے ہیں اسی طرح لندن میں بھی جمع ہوتے ہیں۔ جس طرح انڈونیشیا اور ملیشیا میں اس کے لئے مسلمانوں کی بھیڑ دیکھی جاتی ہے اسی طرح افریقی ملکوں میں بھی دیکھی جاتی ہے۔ ہریانہ کے ایک چھوٹے سے علاقے سے جو تحریک شروع ہوئی تھی آج اس کا پھیلاؤ دنیا کے بیشتر ملکوں میں ہو چکا ہے۔ انڈیا، پاکستان، امریکہ،انگلینڈ،کناڈا، سری لنکا،یمن، سابق سویت یونین،یوروپ اور افریقی ملکوں میں اس نے اپنا دائرہ پھیلالیا ہے۔ حیرت انگیز طور پر اس جماعت نے اصلاحی کام بھی کئے ہیں۔بہت سے دین سے دور مسلمانوں کو اس نے دینی مزاج عطا کیاہے اور ان کی اصلاح کی ہے۔

اس کے مخالفین تنقیدیں بھی کرتے رہے ہیں مگر اس سے اس جماعت کا کچھ نہیں بگڑا اور روز بروز اس کا دائرۂ اثر بڑھتا رہا۔ اس جماعت کی کوئی باقاعدہ ممبر شپ نہیں دی جاتی
اور نہ ہی رجسٹریشن ہوتا ہے۔ یہاں تک کہ ممبران کا کوئی باقاعدہ حساب و کتاب بھی نہیں رکھا جاتاباوجود اس کے یہ ایک انتہائی منظم جماعت ہے۔اس جماعت کے کل کتنے ممبران ہیں

اس کا علم خود اس کے امیر کو بھی نہیں ہوتا۔ اس کے اجتماعات میں لاکھوں کی بھیڑ ہوتی ہے مگر کبھی بدامنی اور بے انتظامی نہیں ہوتی۔ حاضرین ایک دوسرے کی مدد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

جماعت کی تاریخ

تبلیغی جماعت نے ۱۹۲۶ء میں اپنا پہلا مرکز راجدھانی دہلی کے حضرت نظام الدین بستی میں واقع بنگلہ والی مسجد میں کھولا۔ تب تک اس نے ایک بنیادی شکل ہی لی تھی اور اس کے کام کی ابتدا ہریانہ کے میوات سے ہوچکی تھی۔ اس کے بانی مولانا محمد الیاس کاندھلوی مرحوم ہیں جنھوں نے ایک مخلصانہ مقصد سے اسے قائم کیا۔ میوات کے علاقے میں میو مسلمانوں کی بڑی تعداد رہتی ہے جو راجپوت مسلمان ہیں۔ انھوں نے عہد وسطیٰ کے اخیر میں اسلام قبول کیا تھا اور ابھی اصلاح نہیں ہوپائی تھی۔ وہ نیم مسلم اور نیم ہندو تہذیب کے زیر سایہ جی رہے تھے۔ اسی دوران اس علاقے میں شدھی تحریک شروع ہوئی جس کا مقصد مسلمانوں کو ہندو بنانا تھا۔ ایک زمانے میں اس تحریک نے زور پکڑا تھا۔ اسی بیچ انگریز بھی مسلمانوں کو عیسائی بنانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ بعض مسلمانوں نے اس کے اثر میں آکر اسلام سے ارتداد کا راستہ بھی اپنا لیا تھا۔ اسلام کے خلاف خطرات کے بادل گھرے ہوئے تھے جسے مولانا الیاس صاحب نے دل سے محسوس کیا اور انھوں نے مدرسہ مظاہر علوم سہارنپور سے اپنا درس و تدریس کا کام چھوڑ کر مسلمانوں کی اصلاح کا کام شروع کیا۔ انھیں لگا کہ مسلمانوں کو اسلام سے جوڑے رکھنے کا طریقہ صرف یہی ہے کہ ان کی دینی تربیت کی جائے اور انھیں تقویٰ سے آراستہ کیا جائے۔ چنانچہ وہ میوات کے مسلمانوں کی اصلاح کے کام میں مصروف ہوگئے۔تبلیغی جماعت کو انھوں نھے قائم کیا اور منظم شکل دی۔ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہونے لگے تھے کیونکہ مسلمانوں کی اصلاح ہونے لگی تھی انھوں نے کفر کے بجائے اسلام کے سائے میں جینا پسند کیااور بہت سے مرتد دوبارہ اسلام میں داخل ہوگئے۔

جماعت کا پھیلاؤ
تبلیغی جماعت نے جب ۱۹۲۶ء میں بستی حضرت نظام الدین کی بنگلے والی مسجد کو مرکز بنایا اس کے بعد اس کا تیزی سے پھیلاؤ ہوا۔ بانی جماعت ہی پہلے امیر قرار پائے اور انھوں نے نعرہ دیا’’اے مسلمانو! مسلمان بنو۔‘‘یہ گویا قرآن کی اس آیت کا ترجمہ تھا جس میں فرمایا یا ہے کہ ’’اے لوگو جو ایمان لائے ،اسلام میں پوری طرح داخل ہوجاؤ۔‘‘جماعت کا مقصد تھا کہ مسلمان قرآن اور سنت کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھال دیں۔۱۹۴۱ء میں اس کا پہلا اجتماع ہوا جس میں ۲۵ ہزار مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس سے ظاہر ہے کہ ابتدائی دنوں میں ہی اسے مقبولیت ملنے لگی تھی۔ اس نے بیرون ملک اپنی پہلی جماعت۱۹۴۶ء میں بھیجی جو حجاز اور انگلینڈ کے دورے پر گئی تھی۔ ۱۹۸۰۔۱۹۷۰ء کی دہائی میں یہ پورے یوروپ و امریکہ میں پھیل چکی تھی۔ اس دوران اس کا ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں بھی پھیلنا جاری تھا۔بھارت ، پاکستان، بنگلہ دیش، اندونیشیا، ملیشیا اور سری لنکا میں تو جماعت نے بڑے پیمانے پر اپنا دائرہ بڑھادیا تھا۔ ۱۹۷۸ء میں انگلینڈ کی مرکزی مسجد،دیوس بری میں اس نے اپنا مرکزقائم کرنے میں کامیابی پائی۔ بعد میں یہاں مدرسہ بھی قائم ہوا جسے انسٹی ٹیوٹ آف اسلامک ایجوکیشن کہا جانے لگا اور تبلیغی اجتماعات بھی ہونے لگے

۱۹۶۰ء میں تبلیغی جماعت فرانس میں پہنچی اور اگلے دس سال کے اندر اس نے یہاں اپنی جگہ بنا لی۔ ۱۹۸۹ء میں اس نے یہاں کی مذہبی کونسل میں اپنے ممبران کو اسلام کی نمائندگی کے لئے بھیجا۔ ۲۰۰۶ء میں فرانس کے اندر اس کے ممبران کی تعداد ایک لاکھ سے اوپر جاچکی تھی۔یونہی ۲۰۰۷ء تک انگلینڈ کی ۱۳۵۰ مسجدوں میں یہ پھیل چکی تھی۔

۱۹۹۱ء میں سویت یونین کے بکھراؤ کے بعد یہاں کے مسلمانوں میں دینی اصلاح کی شدید ضرورت تھی جو کمیونزم کے اثر کے تحت اپنے مذہب سے بیگانہ ہوچکے تھے،ایسے میں سنٹرل ایشیا کے ملکوں میں اس نے زبردست کردار ادا کیا اور مسلمانوں کو دین سے قریب کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ اس پورے خطے میں اس کا کام جاری ہے۔ ۲۰۰۷ء تک اس نے صرف کرغیزستان میں اپنے دس ہزار ممبر تیار کر لئے تھے جو اصلاحی کام میں لگے ہوئے تھے۔

امریکہ کی ایف بی آئی کا خیال ہے کہ اس کے پچاس ہزار ممبران صرف امریکہ میں سرگرم عمل ہیں اور ۲۰۰۸ء تک یہ دنیا کے ۲۱۳ ملکوں میں پھیل چکی تھی۔ قیاس ہے کہ اس کے کل ممبران کی تعداد ۱۵۰ ملین کے قریب قریب ہے۔ ان میں سب سے زیادہ جنوب ایشیا میں ہیں۔

خواتین کے بیچ کام
تبلیغی جماعت ابتدائی ایام سے مردوں کے بیچ کام کرتی رہی ہے اور انھیں کی اصلاح کا کام کرتی رہی ہے ،مگر ظاہر ہے کہ جس قدر مردوں کی اصلاح کی ضرورت ہے اسی قدر خواتین کی اصلاح کی بھی ضرورت ہے۔ اسی کے پیش نظر جماعت نے خواتین کے بیچ کام شروع کیا۔ پہلے تو خواتین کو جمع کرکے کوئی خاتون ہی ’’فضائل اعمال‘‘ پڑھاکرتی تھی مگر اب باقاعدہ طور پر خواتین کی بھی جماعت نکلتی ہے جو ایک شہر سے دوسرے شہر اور ایک گاؤں سے دوسرے گاؤں گھومتی رہتی ہے۔مردوں کا قیام تو مسجدوں میں ہوتا ہے مگر خواتین کو کسی محفوظ مکان میں ٹھہرایا جاتا ہے لیکن انھیں خواتین کو اس سفر کی اجازت ملتی ہے جن کے ساتھ ان کے قریبی رشتہ دار ہوتے ہیں۔

کام کرنے کا طریقہ
تبلیغی جماعت کے کام کرنے کا طریقہ بہت ہی سادہ ہے۔ یہ اپنے لوگوں کو گھر گھر بھیجتے ہیں جو انھیں مسجدوں میں آنے کی دعوت دیتے ہیں۔ مسجد میں جہاں نماز ہوتی ہے، وہیں نماز کے بعد موجود لوگوں کو اسلام کے مطابق زندگی گذارنے اور آخرت کو بہتر کرنے کی تاکید کی جاتی ہے۔

تبلیغی جماعت کے ممبران لوگوں کو جماعت میں نکلنے کی دعوت دیتے ہیں اور اس کے تحت وہ لوگوں کو ایک مسجد سے دوسری مسجد اور ایک شہر سے دوسرے شہر لے کر گھومتے ہیں۔ اس دوران سفر اور مسجدوں میں قیام کے وقت وہ ایک دوسرے کی اصلاح کی کوشش کرتے ہیں اور نماز کی ترکیب و نیک اعمال کے فضائل بتاتے ہیں۔ ان کا قیام مسجدوں میں ہوتا ہے اور کھانا پینا بھی یہیں ہوتا ہے۔ جماعت میں نکلنے والے تین دن، دس دن، ایک مہینہ یا چار مہینے کے لئے چلّے پر نکلتے ہیں جو، ان کی سہولت کے مطابق ہوتا ہے۔ اس دوران یہ کسی ایک شہر یا ایک علاقہ یا ایک ملک کا سفر کرتے ہیں۔ اسے دین کے راستے میں نکلنا کہا جاتا ہے۔ عام طور پر نماز عصر کے بعد جماعت کے لوگ گھوم گھوم کر لوگوں کو نماز کی دعوت دیتے ہیں اور اگر کوئی شخص ان کے ساتھ سختی کرے تو بھی انتہائی حلم و بردباری کے ساتھ اسے برداشت کرتے ہیں۔

تعلیم کا طریقہ
تبلیغی جماعت لوگوں کی اصلاح کے لئے سیدھے طور پر قرآن و حدیث کی مدد لیتی ہے اور علماء اس میں شامل ہوتے ہیں۔ جماعت میں گھومنے والے اسلامی تربیت سے آگاہ ہوجاتے ہیں اور وہی ایک دوسرے کو اسلام کی بنیادی باتوں سے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ اس کا پورا نصاب ہی’ ’فضائل اعمال‘ ‘نامی کتاب ہے ،جسے پہلے’’ تبلیغی نصاب‘‘ کہا جاتا تھا مگر نہ جانے کن وجوہات سے اب اسے فضائل اعمال کا نام دے دیا گیا ہے۔ مولانازکریا رحمۃ اللہ علیہ کے کچھ رسالوں کو اس میں شامل کیا گیا ہے جن میں قرآن اور احادیث کی روایتوں کے مطابق کچھ نیک اعمال کے فضائل بیان کئے گئے ہیں۔ جن میں ایمان،نماز، ذکر، درود اور تبلیغ شامل ہیں۔ یہ کتاب عام طور پر جماعت کے حلقے میں پڑھی جاتی ہے اور سب لوگ بیٹھ کر سنتے ہیں۔ علاوہ ازیں جماعت کے داعیان کی اصلاحی تقریریں ہوتی ہیں ۔

تنظیم جماعت
تبلیغی جماعت کی تنظیم دوسری جماعتوں سے الگ ہے اور ان ضابطوں کو عام طور پر ملحوظ خاطر نہیں رکھا جاتا جن کا لحاظ دوسری تنظیمیں کرتی ہیں۔ اس کا ایک مرکزی امیر ہوتا ہے جس کا انتخاب ایک مجلس شوریٰ کرتی ہے۔ امیر عمر بھر کے لئے ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ علاقائی امیر ہوتے ہیں نیز جب جماعت کہیں باہر نکلتی ہے تو ممبران میں سے ایک شخص کو ان کا امیر بناکر بھیجا جاتا ہے جو ان کے معاملات کا نگراں ہوتا ہے اور سبھی ممبران اس کے احکام کی پیروی کرتے ہیں۔ جماعت کے سابق مرکزی امیروں میں مولانا محمد الیاس کاندھلوی، کے علاوہ مولانا محمد یوسف کاندھلوی، مولانا انعام الحسن کے نام قابل ذکر ہیں۔پاکستانی تبلیغی جماعت کے امیر حاجی عبدالوہاب کو دنیا کی بااثر شخصیات میں گنا جاتا ہے۔

جماعت کا اپنا کوئی باقاعدہ فنڈ نہیں ہوتا جب ضرورت پڑتی ہے تو اس کے خیر خواہ آپس میں چندہ جمع کرلیتے ہیں۔ بڑے بڑے اجتماعات کا اسی طرح انتظام ہوجاتا ہے۔
جن لوگوں کو تبلیغی جماعت نے متاثر کیا ان میں کئی بڑے بڑے نام شامل ہیں۔بھارت کے سابق صد جمہوریہ ڈاکٹر ذاکر حسین اور بنگلہ دیش کے اولین صدر شیخ مجیب الرحمٰن اس کے اجتماعات میں شامل ہوچکے ہیں۔ پاکستانی پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ پرویز الٰہی بھی جماعت کے مداحوں میں شامل رہے ہیں جنھوں نے اسے ایک بڑا قطعہ ارضی دیا تھا۔ پاکستانی کرکٹرس میں شاہد آفریدی، محمد یوسف، ثقلین مشتاق، انضمام الحق، سعید انور، وقار یونس، مشتاق احمدسمیت کئی سیلبیریٹیز نے اس سے وابستگی اختیار کی۔
بشکریہ فکروخبر

No comments:

Post a Comment