Wednesday 12 October 2016

تبلیغی جماعت کی برکت سے عمل کا ماحول پیدا ہو گیا

🌿جماعت تبلیغ کی برکت سے🌴

🍃 عمل کا ماحول پیدا ہو گیا 🌱

ہمارے حضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ ان کے قلب پر اللہ نے تبلیغ کو ایک فن کی صورت میں القا فرمایا. تبلیغ ہو رہی تھی علماء دعوتیں بھی دے رہے تھے.

مولانا کے قلب پر اللہ نے الہام فرمایا اور انہوں نے ایک طریقہ مقرر کیا. جو اس زمانے میں مؤثر ہو اور اس میں جماعتی رنگ ہوکہ ایک ایک فرد نہ جائے. جماعتیں جائیں.
لوگوں کو گھروں سے نکال کر لائیں. اور جماعت بناؤ. جماعتی طور پر جب آپ گشت کریں گے اور جماعت ایک زبان ہوکر ایک ہی بات کہے گی. قدرتی طور پر اس کا اثر پڑے گا.

کوئی معاند ہو. کوئی دشمن ہو نہ مانے. دنیا میں ہر زمانے میں معاند اور دشمن رہے ہیں. مگر ان کا کوئی اعتبار نہیں ہوتا. عقل والوں کا اعتبار ہے. عقل مندوں کے سامنے جماعتی حیثیت کبھی نظر انداز ہونے کے قابل نہیں ہوتی. تو مولانا کے قلب پر اللہ نے اس طریقے کو القاء فرمایا.

جب انسان جماعت کے ساتھ چل پڑتا ہے. تو گھر میں عمل سے روکنے والی چیز گھر کی آسائشیں اور راحتیں ہی تو ہوتی ہیں. گھر میں آرام کرتا ہے تو کبھی نماز چھوٹ گئی. کبھی کوئی عمل چھوٹ گیا. لیکن جب گھر سے نکل گیا تو سامان راحت ہی منقطع ہو گیا. اب سوائے اللہ کے نام کے اور کوئی کام باقی نہیں رہ گیا کہ خواہ مخواہ آدمی ہی کا نام لے. گھر سے نکل کر جب مسجد میں آگیا. اب اللہ کا نام نہیں لے گا تو اور کیا کرے گا؟ گویا عمل کرنے اور اللہ کا نام لینے پر مجبور کر دیا. تو فقط یہی نہیں کہ دعوت الی اللہ کی جماعتی صورت قائم کی بلکہ ایک عملی صورت بھی قائم کردی کہ ہر شخص عبادت پر مجبور ہو.

اس واسطے ماحول کا اثر پڑتا ہے. ماحول جب اللہ والوں کا ہوتا ہے. تو آدمی خواہ مخواہ اللہ کا نام لینے پر مجبور ہوتا ہے. حضرت مولانا گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ شادی کے سلسلہ میں شرکت کیلئے تھانہ بھون گئے تھے اور حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ تھانہ بھون میں موجود تھے. مولانا گنگوہی حاضر ہوئے ملاقات ہوئی. حضرت حاجی امداد اللہ صاحب رحمۃاللہ علیہ نے مولانا گنگوہی کو فراست باطنی سے پہچان لیا. کہ اس شخص کے قلب کے اندر کوئی جوہر موجود ہے. خود فرمایا کہ کسی سے مرید ہو؟ انہوں نے کہا نہیں. فرمایا مجھ سے ہی ہوجاؤ. یعنی کس تیقّن سے فرمارہے ہیں کہ مجھ سے ہی مرید ہو جاؤ.

انہوں نے کہا کہ مرید ہونے کے لئے میں آیا نہیں. میں تو شادی کے سلسلہ میں شرکت کیلئے آیا ہوں. فرمایا ان دونوں میں کوئی تضاد تھوڑا ہی ہے. ٹھیک ہے شادی میں شرکت کے لئے آئے تھے. اب مرید ہو جاؤ. انہوں نے کہا میں مرید ہو جاؤں گا تو آپ کہیں گے یہاں رکو اور اللہ اللہ کرو. یہ میرے لئے بڑا مشکل ہے. میں بچوں کو پالوں گا یا یہاں بیٹھ کر ذکر اللہ میں مشغول رہوں گا. فرمایا یہ تو ہم نہیں کہتے کہ تم یہاں ٹھہرو. اب حضرت حاجی صاحب رحمۃاللہ علیہ بار بار فرما رہے ہیں کہ تم بیعت ہو جاؤ اور مولانا گنگوہی بار بار انکار کر رہے ہیں. لیکن با الآخر بیعت ہوگئے.

اس کے بعد فرمایا کہ بس ایک چالیس دن میرے پاس ٹھہر جاؤ. عرض کیا. اسی لئے میں بیعت نہیں ہوتا تھا کہ میں نہیں ٹھہر سکتا. فرمایا چلو بیس دن ٹھہر جاؤ. انہوں نے کہا کہ میرے پاس بیس دن بھی نہیں ہیں. فرمایا دس دن ہی ٹھہر جاؤ. ہوتے ہوتے آخر تین دن پر بات آئی کہ میں تین دن ٹھہر جاؤں گا

مولانا گنگوہی آکر تین دن کے لئے خانقاہ میں مقیم ہو ئے. رات کو جب تین بجے کسی نے تہجد پڑھا. کسی نے ذکر اللہ کیا. اب پڑے پڑے شرم آئی کہ سارے لوگ تو اللہ اللہ کر رہے ہیں اور میں پڑا سوتا ہوں. تو خود بھی اٹھ کر وضو کیا اور چار رکعت پڑھیں. اگلے دن ارادہ کیا کہ اب میں نہیں پڑھوں گا. چاہے کوئی اٹھے نہ اٹھے. تو سو گئے. جب رات کے تین بجے لوگ اٹھے. تو ارادہ کیا میں نہیں اٹھوں گا مگر ماحول سے مجبور تھے. اٹھنا پڑا. تو کچھ تہجد پڑھا اور اللہ اللہ بھی کی. جب اسی طرح تین دن ہوگئے اور قلب پر اس کا اثر نمایاں ہوا. تو حضرت حاجی صاحب رحمۃاللہ علیہ سے عرض کیا کہ حضرت اگر آپ اجازت دیں تو کچھ اور ٹھہر جاؤں.؟ فرمایا ہم نے تو ٹھہرنے کو نہیں کہا تھا. تمہاری مرضی ہے. پھر دس دن ٹھہرنے کا ارادہ کیا. پھر بیس دن. پھر یہ معلوم ہوا کہ چالیس دن یا کتنے دن وہاں ٹھہرے. لیکن بہرحال خلافت لے کر وہاں سے واپس ہوئے.

تو مولانا الیاس صاحب رحمۃاللہ علیہ نے جہاں ایک جماعتی رنگ بنایا. وہاں ایک ماحول بھی تیار کیا. اس ماحول کے اثر سے آدمی مجبور ہو گا کہ آدمی ذکراللہ کرے.

🌿ماخوذ خطبات حکیم الاسلام جلد چہارم 🌱

🌿احقر محمد شمیم
مدرسہ دارالعلوم حسینیہ
بوریولی ممبئی 🌷

No comments:

Post a Comment