Wednesday 12 October 2016

حافظ یعقوب صاحب کرہی

🔵 آہ حافظ محمد یعقوب صاحب اب نہیں رہے اناللہ و اناالیہ راجعون 🔵

محترم احباب کرام ، ہم تمام مسلمانوں کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ دنیا  فانی ہے  اور ہر ذی نفس کو موت کا مزہ چکھنا ہے لیکن احباب کچھ انسان ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنے کردار اور گفتار اور حسن  مزاج سے دنیا میں امر ہوجاتے ہیں انکے چلے جانے کے بعد بھی دنیا انہیں اچھے کلمات سے یاد کرتی ہے ۔ ایسے ہی  کرھی کی ایک فرشتہ صفت  شخصیت حافظ محمد یعقوب صاحب کی بھی تھی۔ جنہیں ہم اپنے لاشعوری کے زمانے سے ہی جانتے تھے۔   اور بچپن سے ہی انہیں ایسی حالت میں دیکھتے چلے آئے تھے انکے جسم کی ساخت کچھ اس طرح سے تھی قد لمبا اور چھریرا تھا نہ زیادہ موٹے تھے اور نہ زیادہ دبلے یعنی کہ متوسط الجسم تھے  چہرہ نورانی مشرع سفید داڑھی کے بال انکے چہرے پر نہایت ہی خوبصورت دکھتے تھے سفید کرتا اور لنگی انکا من پسند لباس تھا اور  دو پلی سفید ٹوپی ہمیشہ انکے سر کی زینت بنی رہتی تھی اپنی  پوری زندگی تجارت سے منسلک رہے  انہوں نے کبھی اپنے زندگی کے لمحات کو آزاد نہیں چھوڑا نہ وہ کبھی کسی کے  پاس بے مقصد لغو باتوں کے لیے بیٹھے اور نہ کسی کی غیبت کرکے اپنے اجر کو کم ہونے دیا وہ اعلی اخلاق کے مالک تھے جس سے ملتے اسکو اپنا بنا لیتے  ملنسار اور شگفتہ مزاج تھے نماز کے بیحد پابند اول وقت پر مسجد پہنچ جاتے تھے انصاری محلہ مسجد کے وہ روح و رواں تھے   ہر دینی کام میں وہ پیش پیش رہا کرتے تھے اپنے محلہ کی مسجد میں امام صاحب کی غیر موجودگی میں پیش امام کا کام بھی انجام دے دیا کرتے تھے  پورا گاؤں انہیں بڑی عزت اور قدر کی نگاہ سے دیکھتا تھا  ہر ایک کے جنازے  میں بلا امتیاز شریک ہوتے تھے میت کی تجہیز و تکفین میں بھی حصہ لیتے تھے میت کو غسل وغیرہ کے لئے بھی حافظ جی مدعو کئے جاتے تھے حافظ جی مکمل انسان تھے جنکی جتنی بھی تعریف کیجائے  کم ہے حافظ جی انسانیت کے علمبردار تھے انکی زندگی ہم لوگوں کے لئے ایک نمونہ تھی  آج کے اس دور میں جب کہ  انسان مسابقت کے حرص میں سب کچھ بھول جاتا ہے حرام و حلال کی تمیز نہیں کر پاتا رشتے اور ناطے کا لحاظ نہیں رکھ پاتا  اپنے مزاج  اور اپنی انا کو  اپنے تابع نہیں رکھ پاتا لیکن حافظ جی نے تاعمر اپنے زور بازو پر اعتماد کیا اپنے بچوں کو حرام کے مال سے ہمیشہ دور رکھا  اسی کا نتیجہ ہے کہ انکے بچے سب با مشرع اور دینی تعلیم سے آراستہ ہیں  حافظ جی سادہ لوح تھے کسی بھی شخص سے اونچی آواز میں بات نہیں کرتے تھے  اور نہ ہی پوری زندگی کسی سے دست گریباں ہوئے  اور  نہ انکی کٹورے جیسی آنکھ کبھی غصہ سے سرخ ہوئ اور نہ انکے ہونٹ کبھی غصہ میں لرزاں ہوئے اور نہ جسم کبھی بے قابو ہوا اور نہ انکے قدم کبھی غصہ سے لڑکھڑائے  اور نہ ہی دل میں کسی کی بدی  کو محفوظ کرکے رکھا اسی لئے پورا گاؤں آج انکی موت پر آبدیدہ ہے شاید آج میرے گاؤں کی فضا بھی سوگوار ہو۔  کیونکہ یہ انسان ہی ایسے تھے جو ہر دلعزیز تھے اور ہر شخص کے دل میں بستے تھے چاہے بندو ہو یا مسلم یا ذات بھی کوئی ہو وہ سبکے نور نظر تھے  حافظ جی کا جانا ہم سبکو کے لئے تکلیف دہ ہے ایسے انسان بہت کم ہی ہوتے ہیں جو اشرف المخلوقات کے مصداق پر مکمل کھرے اترے ہوں اور جنہوں نے اپنے  دنیا میں آنے کا مقصد سمجھ لیا ہو اور تا زندگی اس پر عمل کیا ہو اور جنہوں نے دنیا کی چمک کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھا ہو  اور دنیا کی زندگی کو ایک مسافرت کی زندگی سمجھکر پوری زندگی اسکی تیاری میں صرف کردیا ہو واقعی میں وہ ولی صفت تھے  جنہوں نے اپنے دامن کو ہمیشہ صاف و شفاف رکھا  کبھی بھی دنیا کی گندگی سے اسے ناپاک نہیں ہونے دیا  اللہ تعالی انہیں غریق رحمت کرے اور انکی قبر کو نور سے بھر دے اور موت کے بعد کے تمام مراحل کو اللہ تعالی اپنے فضل و کرم سے آسان فرمادے  اور انکے لواحقین  کو صبر جمیل کی توفیق  عطا فرما کر اجر عظیم  سے مستفیض فرمادے اور ہم سبکو انکا نعم البدل عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین

✒طالب دعا : انظر حسین کرھی

No comments:

Post a Comment