Wednesday 12 October 2016

مھتمم ہو تو ایسا ہمدرد اور مخلص ہو

🌿مھتمم ہو تو ایسا🍃

🍃 ہمدرد اور مخلص ہو 🌿

مھتمم کی ذمہ داری بہت اہم ہے  قوم کے مال کی حفاظت اور اپنے ماتحتو کے ساتھ اچھا سلوک  اور قوم کے نونہالوں کی عمر ضائع کرنے سے حفاظت یہ اتنا نازک مسئلہ ہے جس میں کامیاب ہو جانا ہر کسی کے بس کی بات نہیں ہے

قوم کے مال کی حفاظت نہ کرنے پر ایک لطیفہ یاد آ رہا ہے جو کہ( کتاب پسندیدہ واقعات )میں نظر سے گزرا

ایک شخص تھا جو چندہ کر نے جاتا تھا تو لوگوں سے یہ کہتا تھا کہ مسجد کے لئے چندہ دو میں پیسہ مسجد میں لگاؤں گا اور چندہ کرکے لاتا تھا تو خد ہی کھا جاتا ہے اس کے ایک دوست نے کہا کہ ابے تو چندہ کرکے لاتا ہے کہتا ہے کہ مسجد میں لگاؤں گا اور خود کھا جاتا ہے تو وہ خائن بہروپیا دھوکے باز کیا کہتا ہے تو میرے ساتھ آ میں تجھے دیکھاتا ہوں اسے لیکر گیا اور جیب سے پیسہ نکالا اور مسجد کی دیوار سے لگا دیا اور کہا کہ دیکھ لوگوں سے تو میں یہی کہتا ہوں کہ مسجد میں لگاؤں گا. لگا دیا مسجد میں. تو وہاں پر حضرت تھانوں رحمۃ اللہ علیہ نے بڑی عبرت اور نصیحت کی بات لکھی ہے کہ اس دنیا میں اس حرام کے پیسے سے کچھ مزہ کرلو کل آخرت میں تین پیسے کے عوض پانچ سو مقبول نمازیں دینی پڑیں گی اس وقت افسوس ہوگا آدمی خون کے آنسو روئے گا. اللہ رب العزت ہم سب کو امانت دار بنائے چونکہ قوم کا پیسہ حقوق العباد سے تعلق رکھتا ہے یہ معافی مانگنے یا کسی آنسو بہانے یا گریا زاری کرنے یا کسی بہت بڑے عمل کرنے سے معاف ہو ہی نہیں سکتا ایک ہی راستہ ہے جو جس کا حق لیا ہے واپس کرے اور قوم کی زکوٰۃ صدقات عطیات کی رقم جو کوئی بھی اسے ہڑپ کریگا اس کی آخرت میں پکڑ یقینی ہے. اور ایسی رقوم کو غصب اور ہڑپ کرنے والا شریف النسل ہو ہی نہیں سکتا. بلکہ یہ دنیا کا سب سے بڑا ظالم ہے. مانگ کر لاتا ہے غریبوں یتیموں مسکینوں کے نام پر اور کتا کمینہ سور خود ہی کھا جائے اس سے بڑا فاسق و فاجر کون ہوگا

دوسری بات اپنے ماتحت سے اچھا سلوک کرنا اور مدارس اسلامیہ میں تو علماء کرام اور حفاظ عظام ہوتے ہیں ان کے ساتھ برا سلوک اور ان کو اپنے سے کمتر اور ان کے حقوق کی پامالی یہ سب وہی مھتمم کر سکتا ہے جس کے دل میں خوف خدا ہو ہی نہیں. جس کے دل میں گھمنڈ تکبر کوٹ کوٹ کر بھرا ہو. انسانیت اور اخوت نام سے اس کا تعلق ہی نہ ہو. ایسے مھتمم کے یہاں کام کرنے سے اچھا ہے سلام کرکے رخصت ہو جائیں. جو لوگ علماء کرام اور حفاظ کرام کی توہین کے مرتکب ہوں گے ان کو اپنے سے کمتر سمجھیں گے ان کا حشر اچھا ہو ہی نہیں سکتا چہ جائیکہ وہ عالیشان گھروں میں اور عمدہ گاڑیوں میں اور قوم کے قیمتی دولت سے کچھ دنوں عیش و عشرت میں دن گزار لیں. ایک بات کڑوی ضرور ہے لیکن آنکھوں نے دیکھا ہے کہ کچھ کمیاں اساتذہ کی بھی ہیں جیسے کہ جو عالم ہوتے ہیں وہ تحصیل علم میں حق ادا نہیں کرتے اور نہ ہی کسی شیخ کامل کے تربیت یافتہ ہوتے ہیں جس کی وجہ درسی کتابوں سے تشنگان علوم نبوت کو سیراب کرنا اور خطابت اور تفسیر کرنا ان سب میں سو میں کچھ ہی فیصد لوگ ہی ماہر ہوتے ہیں دس سال اسی علم کو حاصل کرنے میں ہم نے وقت صرف کیا اور آج اسی میں ہم نے مہارت حاصل نہیں کی. دوسری بات ہمارے جتنے بھی جلیل القدر علماء کرام گزرے ہیں سب کا کسی نہ کسی شیخ کامل سے رابطہ رہا ہے اور اگر یہ بات بھی ہمارے اندر نہیں پائی جاتی ہے تو ہمیں کہاں سے عزت ملے گی. علم میں مہارت نہیں تربیت یافتہ بھی نہیں. تو سب سے پہلے ان کمیوں کا دور کرنا ضروری ہے. تو مھتمم کو اپنی اصلاح کرنی ہوگی ساتھ ساتھ میں ماتحت کو بھی اپنی کمی کوتاہی پر نظر ثانی کرنی ہوگی تب جا کر یہ مسئلہ حل ہو گا.کوئی شخص چاپلوسی کرکے زیادہ دن تک کہیں نہیں ٹھہر سکتا. وسیع علم اور اعلی اخلاق یہ ایسی خوبیاں ہیں جو دوسروں کو اپنی عزت کرانے پر مجبور کر دیتی ہیں اور انسان دل سے ایسے  باکمال حضرات کی عزت کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے. راقم الحروف کا یہ تجربہ ہے کہ کسی مھتمم نے کسی اہل علم اور با اخلاق عالم کی قدر نہیں کی تو خدا اسی دنیا میں مھتمم کو ایسا مدرس عطا کریگا جو اس کی حد درجہ پریشانی کا سبب بنے گا اور اس عالم کو اتنی بہترین جگہ ملے گی جہاں قدر دان حضرات موجود ہوں گے.

تیسری بات اس کی طرف اشارہ کیا تھا ممبئی جمیعت علماء ہند کے اہم کار کن محترم جناب حافظ ندیم صاحب دامت برکاتہم نے چیتا کیمپ کے مدرسہ وفاق المدارس کی ایک مٹنگ میں برجستہ یہ بات کہی کہ کچھ لوگوں نے دس پانچ بچوں کو کرائے کے مکان میں رکھ کر خوب زوروشور سے چندہ اکٹھا کرتے ہیں اور پڑھائی نام کی کوئی بات نہیں بس اپنی دوکان چلا رہے ہیں احباب یہی لوگ ہیں جو قوم کے نونہالوں کی عمر کو ضائع کر رہے ہیں اللہ رب العزت ان سب سے ہماری اور آپ کی حفاظت فرمائے

احباب آج بھی اس گئے گزرے دور میں ایسے بھی اہتمام کا حق ادا کر نے والے نیک متقی پرہیز گار اور اساتذہ کے خیر خواہ اور طالب علموں کے غمخوار اور امانت دار حضرات موجود ہیں احقر کے ایک دوست ہیں اور وہ ان تمام اوصاف کے مالک ہیں ان کے مدرسے میں اساتذہ سے میں نے  بات کی سبھی اساتذہ ان کے حق میں تعریف اور دعا دیتے ہوئے نظر آئے اور کیوں نہ ہوقریب قریب اپنے برابر اور چند  اساتذہ کو اپنے سے زیادہ تنخواہ دیتے ہیں اور شاید ممبئی کی جھونپڑ پٹیوں میں کہیں اتنی تنخواہ نہ ملتی ہو

چونکہ میرے دوست خود بہترین قرآن پاک پڑھتے ہیں اسلئے ان کے تمامی اساتذہ کرام قرآن پڑھنے پڑھانے کے بہت ماہر ہیں جو ایک بار میرے دوست کے مدرسے میں آیا وہ وہیں کا ہوکر رہ گیا اب تک جس بستی میں مدرسہ ہے وہاں کے محلے کے تقریباً دس بچے حافظ قرآن ہو چکے جن کا گھر مدرسے کے ارد گرد میں ہےاور یہ بچے نورانی قاعدہ سے ان کے ہی مدرسے میں ابتداء کئے اور تکمیل حفظ بھی یہیں پر ہوئی باقی ممبئی کے اطراف کے علاقوں میں رہنے والے بچوں کی تعداد اس سے زیادہ اور یہ سب کچھ چار یا پانچ سال کے قلیل عرصہ میں کام ہوا ہے اس سے پہلے صرف ناظرہ مکتب کی شکل میں مدرسہ تھا اور سینکڑوں بچے بچیاں ناظرہ کی تکمیل کر چکے ہیں

میرا دوست اتنا بڑا امانت دار ہے کہ میرا پندرہ سال سے تقریباً تعلق ہے پیسوں کا بھی ہمارا لین دین رہتا ہے اللہ گواہ اس نے کبھی پیسہ لیا اور ہم بھول گئے لیکن اس نے یاد دہانی کراکر وہ پیسہ لو ٹا دیا. اور میں برسوں سے دیکھ رہا ہوں اساتذہ کا ہدیہ جو کسی کو معلوم نہیں رہتا اور ان کے کپڑے یہ فلاں صاحب نے دیا اتنی اتنی رقم آپ لوگوں کو ہدیہ آج کے اس دور میں ایسے مخلص لوگ بہت کم دیکھنے کو ملتے ہیں اللہ ان کے حوصلے اور عزائم کو مزید بلند فرمائے آمین

واقعی میں   مھتمم ہو تو ایسا ہمدرد اور مخلص ہو

اللہ رب العزت ہم تمامی حضرات کو امانت دار بنائے اور ہم سب کو اخلاص کی دولت سے مالا مال فرمائے آمین ثم آمین

احباب چونکہ میں کم علم ہوں اس لئے لکھنے میں جو کمی کوتاہی ہو گی معذرت خواہ ہوں

ممبئی کے حالات کو سامنے رکھ کر یہ تحریر میں نے ارسال کیا ہے. اکثر باتیں آنکھوں دیکھا حال ہے

احقر محمد شمیم

No comments:

Post a Comment