Monday, 15 August 2016

تبلیغی جماعت اصلاحی طریقوں کی جامع ہے قسط نمبر 8

🍃تبلیغی جماعت اصلاحی🍃

🌱طریقوں کی جامع ہے 🌱

📝قسط نمبر (8)📚

بے جا اعتراض

اور پھر اعتراضات تو وہ قابل قبول ہیں. جو کام میں گھس کر کئے جاویں. اور جو باہر بیٹھ کر اعتراضات کرے وہ قابل قبول نہیں ہوا کرتے. اگر اندر گھس کر کوئی اعتراض کرے تب تو ٹھیک ہے. لیکن اندر گھسنے والا کوئی اعتراض کرتا نہیں. کیونکہ داخل ہونے کے بعد اسے اس کام کا فائدہ معلوم ہو جاتا ہے. اس سے معلوم ہو گیا کہ یہ سب باہر کے اعتراضات ہیں جو قابل قبول نہیں.

یوں تو اعتراضات سے مدرسے والے بھی خالی نہیں
اللہ و رسول بھی اعتراضات سے خالی نہیں جیسے کہ اللہ تعالٰی کی نسبت کہا گیا کہ اللہ کے بیٹے اور بیٹیاں ہیں. حالانکہ اللہ تعالٰی کے بارے میں اس طرح کی باتیں کہنا کسی طرح بھی گالی سے کم نہیں.
بخاری شریف کی ایک حدیث  ہے. اللہ تبارک و تعالٰی نے فرمایا کہ انسان نے مجھ کو جھٹلایا. حالانکہ اس کے لئے مناسب نہ تھا کہ میری تکذیب کرے. اس نے مجھے برا بھلا کہا. حالانکہ یہ اسے زیبا نہ تھا.
تکذیب مثلاً یہ کہنا کہ اللہ مجھ کو مرنے کے بعد دوبارہ پیدا نہ کریں گے. حالانکہ پہلی مرتبہ کے مقابلے میں دوبارہ پیدا کرنا زیادہ آسان ہے.
اور اس کا مجھے برا بھلا کہنا یہ ہے کہ یوں کہتا ہے کہ اللہ صاحب اولاد ہے حالانکہ میں ایک ہوں. بے نیاز ہوں اور نہ کوئی میرا باپ ہے نہ بیٹا اور نہ ہی کوئی میرا شریک و ساجھی ہے.

آپ خود سوچئے کہ اس سے زیادہ گالی کیا ہوگی کہ کسی آدمی کے متعلق یہ کہا جائے کہ فلاں کے سانپ پیدا ہوا ہے اور اس شخص کے لئے کتنی شرم کی بات ہوگی. حالانکہ سانپ بھی جاندار ہے اور اس معنی کرکے دونوں میں ایک گونہ مماثلت و مشابہت ہے.
اور بھائی اللہ تعالٰی تو نور ہیں. پھر ان کے لئے بیٹا اور بیٹی کا ہونا کیا معنی رکھتا ہے؟
اسی طرح رسولوں کو بھی مورد طعن و تشنیع بنایا گیا. کسی نے کہا یہ تو کاہن ہیں کسی نے کہا جادو گر ہیں وغیرہ وغیرہ.
تو اللہ و رسول بھی اعتراض سے نہیں بچ سکے تو ہماری اور آپ کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے. بہرحال اعتراض کرنے والے تو سب پر اعتراض کرتے ہیں. ان سے گھبرانا نہ چاہئے.

☘ماخوذ خطبات حکیم الاسلام جلد چہارم ☘

احقر محمد شمیم
مدرسہ دارالعلوم حسینیہ
بوریولی ممبئی 💐

جاری

No comments:

Post a Comment