ہوشیار!!!ہر قاسمی اہلِ حق نہیں ہوتا ...
....... فضیل احمد ناصری ....
آج کل اپنی مادر علمی بالخصوص اپنی آخری مادرعلمی کی طرف انتساب ایک "علامت "بن کر رہ گیا ہے-کوئی مفتاح العلوم مئو کا فارغ التحصیل ہو تو مفتاحی، دارالعلوم ندوۃ العلما لکھنؤ کا ہو تو ندوی، جامعہ ہتورا باندہ کا ہو تو باندوی، اسی طرح دارالعلوم دیوبند کا ہو تو قاسمی لگاتا ہے-یہ نسبت اس بات کی واضح نشانی ہے کہ صاحبِ نسبت نے فلاں ادارے سے اپنے نصابِ عالمیت کی تکمیل کی ہے-یہ نسبت دورۂ حدیث سے فراغت حاصل کرنے والوں کے لیے خاص ہے-اس نسبت کا استعمال صرف وہی حضرات کر سکتے ہیں، جنہوں نے باقاعدہ داخلہ لے کر نصابِ عالمیت کی تکمیل کی ہو-جس شخص کا داخلہ نہیں ہوا، مگر اس نے نصاب کی تکمیل کی ہے تو قانوناً اور قاعدۃً اسے اس نسبت کی اجازت نہیں........اگر کوئی شخص شعبۂ سماعت سے فراغت پاکر ہی "ٹریڈمارک "استعمال کرتا ہے تووہ کذاب اور دجال ہے-........ بعض طلبہ شعبۂ حفظ اور شعبۂ تجوید پڑھ کر ہی نسبت گھسیٹ لاتے ہیں-یہ فراڈ اور جعل ہے-.........یہاں یہ عرض کردوں کہ اداروں یا شخصیات کی جانب انتساب کا رجحان ماضی بعید میں نہیں تھا-ہمارے سارے اکابر اپنے وطن کی طرف منسوب ہوا کرتے تھے -حکیم الامت مولانا اشرف علی اپنے وطن تھانہ بھون کی طرف، متکلم اسلام مولانا محمد قاسم صاحب اپنے گاؤں "نانوتہ " کی طرف، امام العصر علامہ محمد انورشاہ صاحب اپنی ریاست "کشمیر " کی طرف......... سارے ہی اکابر کا یہی حال تھا....... میں نے تحقیق کی تو واضح ہوا کہ حضرت کشمیری کے دور تک دارالعلوم کا کوئی فاضل "قاسمی "نہیں لکھتاتھا، حکیم الاسلام قاری محمد طیب صاحب سابق مہتمم دارالعلوم دیوبند "قاسمی "ضرور لکھتے تھے، مگر اپنے دادا حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی کی طرف منسوب ہوکر......قاسمی لکھتے وقت ان کے ذہن میں ادارہ ہرگز نہیں تھا "پھر خدا معلوم کس طرح یہ سلسلہ چل پڑا؟؟؟ میں نے قدیم دارالعلوم میں تین سال پڑھا ہے، میری فراغت وہیں سے ہے -آغاز میں قاسمی لکھنے کا بڑا شوق تھا، خوب لکھا -رفتہ رفتہ اب یہ سودا اتر چکا ہے اور میں "ناصری "سے آگے کوئی نسبت نہیں لگاتا، الاماشاءاللہ....یہ نسبت میرے سترہویں دادا قطب الارشاد"مخدوم شاہ محمد ناصر رحمہ اللہ " کے اسم گرامی کی طرف ہے........خیر!!! چالیس سال پہلے تک "نسبت قاسمی "اتنی بھی عام نہیں تھی، چند لوگ ہی لکھا کرتے تھے-.........یہی حال مظاہری اور دیگر علمی نسبتوں کا بھی ہے......شیخ الحدیث حضرت مولانا زکریا کاندھلوی فاضلِ مظاہر تھے، مگر مظاہری نہیں لکھتے تھے.......نسبتیں لگانے کا رواج صرف ہندوستان میں ہے-باہر ایسا نہیں ہے........ہمارے فضلا پر انتساب کا جنون اس حد تک غالب ہے کہ اب تو صورت حال ہی بدل چکی ہے....جس ادارے میں "نسبتِ قاسمی " کی اجازت ہے، وہاں داخلہ پاتے ہی بعض طلبہ قاسمی لگانا شروع کردیتے ہیں، خواہ وہ اول دوم میں ہوں یا حفظ و تجوید میں .......حضرت مولانا محمد سالم قاسمی دامت برکاتہم کی سندِ مسلسلات پر ایک عزیز کے یہاں نظر پڑگئی، دیکھا تو ایک طالب علم کا نام مع قاسمی لکھا تھا-....مجھے شک ہوا کہ کہیں وہ طالب علم تو نہیں جو فلاں ادارے میں زیر تعلیم ہے؟ اچانک وہی طالب علم آگیا ......میں نے پوچھا: یہ سند تم نے حاصل کی ہے؟ شرما کر بولا: جی حضرت! ..... یہ دارالعلوم وقف کا طالب علم نہیں تھا اور مزے کی بات یہ کہ ابھی عربی دوم ہی پڑھ رہا تھا..........اب تو بعض لوگ اپنے بیٹے کا نام ہی "قاسمی "رکھ ڈالتے ہیں........بعض لوگ اپنے باپ یا دادا کی طرف منسوب ہو کر قاسمی لکھتے ہیں ........یہ درست نہیں ہے....... اس دور میں "قاسمی "کا مطلب "عالمیت کا نصاب مخصوص اداروں سے مکمل کرنے والا " ہے، لہذا غیر عالم کے لیے یہ نسبت درست نہیں.........پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بیٹے کا نام "قاسم "تھا، اسی لیے آپ کی کنیت "ابوالقاسم "بھی تھی.... حضور علیہ السلام کے دور میں ایک شخص نے آواز لگائی: اے ابوالقاسم! ......پیغمبر علیہ السلام متوجہ ہوے اور فرمایا: کیا بات ہے؟ .....وہ صاحب کہنے لگے کہ میں نے آپ کو نہیں، فلاں صاحب کو پکارا تھا.....آپ علیہ السلام نے منع فرمادیا "لاتکتنوا بکنیتی " میری کنیت استعمال نہ کیا کرو! .......یہ ممانعت اشتباہ کے پیش نظر تھی....... یہ بھی خیال رہے کہ اپنے باپ دادا کی طرف منسوب ہو کر بھی قاسمی لکھنا درست نہیں......اگر اپنے آبا کی طرف منسوب ہوکر لکھنے کی اجازت ہو تو تو امت کے ہر فرد کو "قاسمی "لکھنے کا استحقاق ہوگا، کیوں کہ حضور علیہ السلام کا ایک نام قاسم بھی ہے، حدیث رسول ہے: انما انا قاسم واللہ یعطی.........مگر اس کا کوئی بھی قائل نہیں.................افادے کے لیے یہ بھی عرض کردوں کہ مفتاحی "کی نسبت دو ادارے سے فارغ طلبہ لگاتے ہیں: مفتاح العلوم مئو اور مفتاح العلوم جلال آباد..... فلاحی کی نسبت کا استعمال دارالعلوم فلاحِ دارین ترکیسر گجرات والے کرتے ہیں اور جامعۃ الفلاح بلیریا گنج والے بھی....آخرالذکر اھل حق نہیں ہیں.....مظاہری کی نسبت جامعہ مظاہرعلوم قدیم و جدید کے فضلا لگاتے ہیں...اسی طرح مظاہرعلوم سیلم تملناڈ سے فارغ التحصیل بھی مظاہری لکھتے ہیں.....مدرسہ معہد ملت مالے گاؤں کی نسبت علمی "ملّی "ہے، قاسمی کی نسبت کئی ادارے سے فارغ طلبہ لگاتے ہیں: دارالعلوم دیوبند، دارالعلوم وقف دیوبند، جامعہ قاسمیہ کھروڈ گجرات، مدرسہ شاہی مراد آباد اور جامع مسجد امروہہ...... یہ عجیب بات ہے کہ علیگ ایک ہی ہوتا ہے، ملّی بھی ایک ہی اور ندوی بھی ایک ہی، مگر قاسمی متعدد....... ایک پریشانی یہ بھی ہے کہ بعض لوگ باپ دادا کی طرف منسوب ہوکر بھی قاسمی لکھتے ہیں...... میں یہ تفصیل ایک پس منظر میں دے رہا ہوں..... واقعہ یہ ہے کہ پرسوں یعنی رمضان کی اکیسویں شب میں میرا موبائل بجا، ریسیو کیا تو انہوں نے اپنا نام "ناظم قاسمی "بتایا...... میں نے وجہِ تخاطب دریافت کی تو کہنے لگے کہ میں سلطان پور سے بول رہا ہوں اور مجھے مسئلہ معلوم کرنا ہے-میں نے کہا ضرور!!! انہوں نے پوچھا: "اگر کوئی خاتون بجاے انسان کسی جانور سے جنسی تعلق قائم کرے تو عورت پر غسل واجب ہوگا؟؟؟ میں نے کہا: جی ہوگا...... وہ صاحب شک کے ساتھ کہنے لگے کہ "فتاویٰ رشیدیہ "میں تو عدمِ وجوب کی بات ہے..... میں نے پوچھا "کس نے بتایا؟ "تو کہتے ہیں کہ میں نے خود پڑھا ہے.....مولانا گنگوہی نے ایسا لکھا ہے اور شاید وہ فتاویٰ رشیدیہ ہی تھی....اگر میں اپنی آنکھوں سے نہ دیکھتا تو یقین نہ کرتا......اس نے دوسرا سوال داغا: الافاضات الیومیہ جلدسوم میں مولانا تھانوی کا واقعہ انتہائی بھونڈے انداز میں نقل کیا گیا ہے......پھر انہوں نے پورا واقعہ سنایا جو مجھے بھی اچھا نہیں لگا......میں نے کہا: جناب عالی! یہ قصہ حضرت تھانوی کا نہیں ہوگا.....سیاق و سباق دیکھیے! کسی اور کا قصہ حضرت نے بیان کیا ہوگا.....کہنے لگے: یہ "سیاق وسباق "کیا بلا ہے؟ میں نے کہا کہ قصے کا تعلق یا تو اگلی عبارات سے ہے یا پچھلی عبارات سے......کہنے لگے: آگے پیچھے کسی بندے کا کوئی ذکر نہیں ہے-یہ قصہ تھانوی کا ہی ہے.....میں نے کہا کہ کتاب کا اسکرین شاٹ لے کر میرے پاس بھیجیے! جواب آیا کہ میرا موبائل سادہ ہے، میرے لیے یہ ممکن نہیں، پھر انہوں نے اپنا درد بیان کیا کہ مولانا! ہمارے علما کیا کیا لکھ ڈالتے ہیں؟ ہمارے لیے جواب دینا بھاری پڑجاتا ہے....میں نے اس کی تشویش دور کرنے کی کوشش کی، مگر اس نے فون کاٹ دیا....... میں سوچ میں پڑگیا کہ "قاسمی "اور ایسی بے تکی باتیں؟؟؟ ٹھیک ہے کہ ہرقاسمی باصلاحیت نہیں ہوتا، پر ایسا بدصلاحیت بھی تو نہیں ہوتا کہ "خیالِ شریف "میں کوئی معمولی بات بھی نہ گھس سکے .........پھر بیچ بیچ میں حضرت گنگوہی اور حضرت تھانوی سے متعلق اس کا طرزِ کلام انتہائی ناشائستہ بھی تھا.......ایک قاسمی کی زبان ایسی کیوں کر ہونے لگی؟؟؟ ضرور یہ کوئی فراڈی ہے اور شیر کی کھال میں کوئی گدھا آگیا ہے......میں نے فون ملایا اور پوچھا: جناب! کیانام بتایا آپ نے؟؟؟؟ کہنے لگا: ناظم قاسمی سلطانپوری.....میں نے دریافت کیا: آپ کہاں سے فارغ ہیں؟ کہنے لگا: میں ایک عام آدمی ہوں، کسی مدرسے سے پڑھا لکھا نہیں ہوں......میں نے پوچھا: پھر قاسمی کی وجہ؟؟؟؟ کہنے لگا: بس یوں ہی لگاتا ہوں-میں نے کہا: شاید آپ کے والد کا نام قاسم ہے....کہنے لگا: نہیں...تو پھر دادا کا نام قاسم ہوگا.....اس نے اس سے بھی انکار کردیا......کہنے لگا کہ ہمارے علاقے میں قاسمی لکھنے کا عام رجحان ہے، پڑھا بے پڑھا سب لگاتا ہے، اس لیے میں بھی لگاتا ہوں......میں نے کہا: جناب! یہ حرام ہے......اگر کسی کے والد کا نام "عابد " ہو اور "خالد " نامی کسی شخص کی طرف اپنا انتساب کرتے ہوے "خالدی "لکھے تو یہ "باپ بدلنا "ہوا.......یہ حرام عمل ہے-ایسے شخص پر اللہ، رسول، فرشتوں اور تمام انسانوں کی لعنت برستی ہے -بخاری شریف میں ہے "من انتمیٰ الی غیر ابیہ فعلیہ لعنۃ اللہ والملائکۃ والناس اجمعین.........پھر میں نے زور دے کر کہا آپ "بریلوی "ہیں، آپ اہلِ حق ہرگز ہرگز نہیں...... اہلِ حق کی زبان ایسی نہیں ہوسکتی.............میرے ان توبیخی جملوں اور سوطی لفظوں کے بعد اس کی زبان لڑکھڑا گئی........وہ بول بھی نہیں پا رہا تھا .......اس نے کہا تھا کہ "انڈرائڈ موبائل "میرے پاس نہیں، جب میں نے چیک کیا تو اس کا جھوٹ یہاں بھی کھل کر آیا......میں یہ مضمون اسی "جعلی قاسمی "کے واٹس ایپ بکس میں لکھ رہا ہوں-........کہنے کا حاصل یہ کہ آج کل بھیڑ کی شکل میں بھیڑیے گھوم رہے ہیں.....کسی مضمون میں مصنف کے نام کے ساتھ "قاسمی " دیکھ کر ہرگز یقین نہ کریں کہ اصلی قاسمی کا قلم ہے، بلکہ تحقیق کرلیں کہ وہ کس بناپر قاسمی ہے اور اگر وہ فارغ التحصیل ہے بھی، تو کس ادارے سے اور اس کے اساتذہ کے نام کیا ہیں؟؟؟ بعض اہل باطل بھی یہ نسبت لگا رہے ہیں - بریلویوں کا ایک بڑا "سوامی " اسلم بھی قاسمی لکھتا تھا .....وہ مظفرپور بہار کا تھا اور بےحد بدزبان...بریلویوں کی طرف سے اسے "شیربہار "کا خطاب ملا تھا.......اللہ عزوجل تمام مسلمانوں کو "مکر و زور "سے محفوظ رکھے........
No comments:
Post a Comment