🌈مدارسِ اسلامیہ بھی دین کے خادم ہیں، صرف تبلیغی جماعت نہیں🌈ــــــــــــــ ✏فضیل احمد ناصری القاسمی 📝................ مجھے تبلیغی جماعت کچھ لکھنے سے پہلے سوبار سوچنا پڑتا ہے، کیوں کہ بات خواہ کتنی ہی مثبت کیوں نہ ہو، مضمون نگار "منفی ذہن " تسلیم کرلیا جاتا ہے، لیکن کیا کیجیے، نہی عن المنکر کا تقاضا درپیش ہو تو "عشق کو آتشِ نمرود میں بے خطر کودنا ہی پڑتا ہے "....ہوا یوں کہ چند دن پیش تر ایک آڈیو میری سماعت سے ٹکرایا، جس کا خلاصہ یہ تھا کہ مدارس اسلامیہ میں پڑھنا پڑھانا دین کی خدمت نہیں، اسے دینی خدمات کے قبیل سے باور کرنا "نفس کا دھوکہ "ہے، حقیقت اور نفس الامر سے اس کا کوئی تعلق نہیں-تبلیغی مقرر اپنے اس دعوے کو مولانا سعد کاندھلوی دام مجدہم کی طرف منسوب کررہا تھا -دعوے کی دلیل یہ تھی کہ چوں کہ مدارس میں پڑھانے والے تن خواہیں لیتے ہیں، انہی سے اپنے بال بچوں کی پرورش کرتے ہیں،انہی سے اپنی دنیوی ضرورتیں پوری کرتے ہیں، اس لیے تدریس "شریعت "تو کہلا سکتی ہے، مگر دینی کام نہیں-دینی کام تو محض چلوں میں پھرنا، جماعتی اسفار میں سال لگانا اور اپنے بیوی بچوں سے بغیر کسی اجرت کے علاحدگی اختیار کرنا ہے اور بس- ان صاحب نے تعمیرمسجد میں چندہ دینے کو بھی دینی کام نہیں مانا، نماز پڑھنا پڑھانا بھی ان کی نظر میں دینی کام نہیں-.....ان صاحب کا تعارف چاہ کر بھی حاصل نہ کرسکا، لیکن ان کی ہفواتی تقریر سن کر میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے کہ یا اللہ! یہ بےگانۂ دین کیا کیا بک رہا ہے؟ اسے یہ بھی خبر نہیں کہ دین اور شریعت ایک شے ہے یا دونوں میں بون ہے؟ دونوں میں تساوی کی نسبت ہے یا تباین کی؟ وہ صاحب تباینی نسبت کے قائل تھے-یہ ایک افسوس ناک بلکہ شرمناک پہلو ہے-ان کی یہ تقریر اس جانب اشارہ کر رہی ہے کہ اربابِ جماعت تبلیغی اسفار کو ہی دینی خدمت مان رہے ہیں-جب کہ یہ خیال سراسر دھوکہ اور شیطانی وسوسہ ہے-مجھے بے ساختہ ایک حدیث یاد آگئی، یہ حدیث ترمذی جلددوم میں ہے-آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یقبض العلم بقبض العلماء "اللہ تعالیٰ رفتہ رفتہ علما کو اٹھا لیں گے، اس طرح پوری دنیا سے علم کا خاتمہ ہوجاےگا-پھرفرمایا: "حتی اذا لم یترکہ عالماً اتخذ الناس رؤساً جھالاً فافتوا فسئلوا فافتوا بغیر علم فضلوا و اضلوا "جب روے زمین پر کوئی عالمِ دین نہ بچے گا، تو لوگ جاہلوں اور ناواقفانِ شریعت کو اپنا امیر بنالیں گے، وہ ان سے مسائل معلوم کریں گے تو ان کے امیر بغیر علم کے ہی مسائل بتاتے پھریں گے -نتیجتاً امیر صاحب خود بھی گمراہ ہوں گے اور دوسروں کو بھی گمراہ کریں گے، یعنی: خود تو ڈوبے ہیں صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے........ ابھی ایسی صورتِ حال اگرچہ عام تو نہیں ہوئی، مگر جماعت میں شدہ شدہ یہ رجحان پیدا ہوتا جا رہا ہے-منبروں اور اسٹیجوں پر ایسے بھائی تقریر کرتے نظر آتے ہیں جنہوں نے دین کو سرے سے سمجھا ہی نہیں ہے-تبلیغی دوروں میں وقت لگا کر دوچار باتیں بولنا سیکھ جاتے ہیں اور منبر و محراب پر مسند سجانے لگتے ہیں-کسی بھی مسئلے میں عالم دین سے رجوع کرنا جانتے ہی نہیں-اگر خواہی نخواہی پوچھنا ہی ہو تو ایسے عالم کا انتخاب ہوتا ہے جو "نمک کی کان میں جا کر نمک ہوگیا ہو " جس عالم نے سہ روزہ اور ہفت روزہ وغیرہ میں وقت نہیں لگایا، وہ مستند مولوی اور مفتی نہیں "لایعبؤا بہ "ہے-کس نمی پرسد کہ صاحب کیستی؟ اکثر جماعتی احباب کا یہ خیال بھی ہے اور یہ خیال "عقیدہ کی حد تک "پختہ ہوچکا ہے کہ مدارس میں پڑھنا پڑھانا دین کی خدمت نہیں- اسے وقت کا زیاں تو کہا جاے گا، مگر وقت لگانا نہیں-...چناں چہ جب کسی عالم سے سوال ہوتا ہے کہ آپ نے وقت لگا یا؟ اور وہ کہے کہ "مدرسہ میں آٹھ سالوں کا وقت صرف ہوا "تو وہ گھور کر اسے دیکھےگا کہ مغزخوری کیوں کررہا ہے؟ وقت لگانے کا اطلاق صرف جماعتی اسفار پر پر ہوگا، مدارس اور خانقاہوں میں تربیت و تزکیہ پر نہیں-..... جماعتی احباب کی یہ خامی آج سے نہیں، برسوں سے جاری ہے اور اب تو اس کی پرواز بہت اونچی بھی ہوچلی ہے...... سوال یہ ہے کہ کیا مرکز اس سے واقف نہیں؟ یا واقف تو ہے مگر کسی مناسب وقت کے انتظار میں ہے؟؟ ..... جماعتی احباب اتنے جری ہو چکے ہیں کہ الٹی سیدھی ہربات کو مولانا الیاس کاندھلوی، مولانا سعد کاندھلوی اور دوسرے جماعتی اکابر کی طرف دھڑلے سے منسوب کرڈالتے ہیں- آخر جماعتی علما خاموش کیوں ہیں؟؟ہمارے احباب کا تصور ایسا مخدوش ہوچکا ہے کہ وہ صرف جماعتی علما کی بات مانیں گے، غیرجماعتی کی نہیں-تو پھر جماعتی علما ان کے تصورات کی دنیا کیوں تبدیل نہیں کرتے؟ اگر وقت ابھی نہیں آیا تو کب آےگا؟ جب چڑیا کھیت چگ جاےگی تب؟؟؟ .......جماعتی عوام کو یہی نہیں معلوم کہ دین کی خدمت کسے کہتے ہیں اور اس کا دائرہ کس قدر پھیلا ہوا ہے؟؟؟ ......انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ صرف ایمان کے ستر سے زیادہ شعبے ہیں، پہلا شعبہ کلمۂ توحید ہےاور آخری شعبہ "اماطۃ الاذیٰ عن الطریق "یعنی تکلیف دہ چیزوں کو راستے سے ہٹانا- اندازہ لگائیے کہ جب ایمان کے اتنے شعبے ہیں تو خدمتِ دین کے کتنے شعبے ہوں گے!!! جماعتی احباب کو یہ جاننا چاہیے کہ "اسلام "کی مثال ایک "سلطنت "کی سی ہے-جس طرح عام شہری ملک کا خادم ہوتا ہے، پولیس اور فوج بھی ملک کی خادم ہوتی ہے-سیاست داں اور مئیر وغیرہ بھی ملک کے خادم ہی ہیں-اگر کوئی سرپھرا یہ کہے کہ ملک کی خدمت تو بس پولیس کررہی ہے، یا کوئی احمق یہ دعویٰ کربیٹھے کہ ملک کو عوام ہی چلا رہے ہیں، نہ کہ خواص، تو یہی کہا جاے گا کہ عقل مندوں کی دنیا سے اس کا کوئی رشتہ نہیں-سبھی ملک کے وفادار ہیں اور سبھی اس کے خدمت گزار-اسی طرح "اسلام "ہے -اس کا خادم عام مسلمان بھی ہے اور خاص مسلمان بھی-محدثین بھی خادم اسلام ہیں، مفسرین بھی اسلام کے خدام ہیں، متکلمین اور فقہا بھی اسلام ہی کی خدمت میں مصروف ہیں- مدرسوں اور جامعات میں پڑھانے والے بھی دینی کام انجام دے رہے ہیں-مجاھدین اسلام بھی دین کے ہی خادم ہیں-تبلیغی اسفار میں نکلنے والے بھی دین کے خدمت گزار ہیں-حتی کہ مسجد کا امام بھی خادم دین ہے اور مسجد کا مؤذن بھی-اگر امام یہ کہے کہ میں ہی اسلام کی خدمت کررہا ہوں تو اسے عقل سے پیدل کہا جاےگا، اسی طرح مؤذن یا کسی مدرسے کا استاذ ایسا دعویٰ کرے تو یہی کہا جاے گا کہ اسے اپنے دماغ کا علاج کرانا چاہیے-ہاتھی ندیدہ چند اندھوں کو ہاتھی دیکھنے کا شوق ہوا، پاس پہونچے، چھوا اور سب اپنی اپنی بڑ ہانکنے لگے "جناب! ہاتھی کیا ہے، ستون کا نام ہے!! دوسرا بولا نہیں، ہاتھی تو کوڑے کو کہتے ہیں، تیسرا بولا: میاں! پنکھے کا نام ہاتھی ہے "...کسی نے پاؤں پر ہاتھی کا اطلاق کیا، کسی نے دم پر اور کسی نے کان پر...... دراصل ہاتھی کسی نے نہیں دیکھا .... ہاتھی کسی ایک عضو کانام نہیں تھا، بلکہ چند اعضا کے مجموعہ کا نام ہاتھی تھا-جو لوگ اپنے ہی کام کو دین سمجھ رہے ہیں، وہ درحقیقت ہاتھی ندیدہ ہیں-انصاف کی بات یہ کہ سارےہی دین دار مسلمان دین کے خادم اور مبلغ ہیں-تبلیغ کی یہ خدمت اللہ تعالی نے سب سے زیادہ مدارس اور جامعات سے لی، یقیناً خانقاہوں سے دین کا بڑا کام ہوا، تبلیغی جماعت سے بھی اسلام کو بڑی تقویت ملی، مگر سچ یہی ہے کہ مدارس اسلامیہ نے دین کی سب سے بہتر انداز میں خدمت کی-اگر محدثین نہ ہوتے تو فرامینِ رسالت کا ذخیرہ ہم تک کیسے پہونچتا؟ مفسرین نہ ہوتے تو قرآن کا صحیح مطلب ہمیں کون بتاتا؟؟ فقہا نہ ہوتے تو حلال و حرام کی صحیح رہ نمائی کون کرتا؟؟ خادمانِ دین کی یہ ساری فوجیں مدارس میں ہی تیار ہوئیں-انہیں کی کوششوں سے اسلام اپنے اصلی رنگ وروپ اور مکمل لوازمات کے ساتھ ہمارے سامنے ہے-اگر یہ نہ ہوتے تو دشمنانِ اسلام کب کا اسے صفحۂ ہستی سے مٹا چکے ہوتے-تبلیغی جماعت تو ابھی ابھی آئی ہے-اس پر ابھی تو سو سال بھی نہیں گزرے-جب یہ نہیں تھی تو دین کی خدمات کون انجام دے رہاتھا؟؟ حضرت مولانا الیاس کاندھلوی اور جماعت کا دیگر امرا و رہ نما کسی مدرسے کے ہی پڑھے لکھے تھے-.....ایسا بہت دیکھا گیا گیا ہے کہ جماعتی ساتھی غیرمقلد بن گئے، یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ انہیں بریلویوں، مودودیوں اور قادیانیوں نے اچک لیا-یہ بھی سناگیا کہ دیگر باطل فرقے بھی جماعتی احباب کو "لقمۂ تر "سمجھتے رہے ہیں-ظاہر ہے کہ شوقِ عمل کی فراوانی ہزار سہی؛ اگر علم کی رہ نمائی نہ ہو تو صاحبِ شوق کا استحصال کوئی بھی کرسکتا ہے-خواجہ معین الدین چشتی اجمیری کے ہاتھوں پر لاکھوں لاکھ آدمی مسلمان ہوے، مگر آج اجمیر کو دیکھیے تو کفر وشرک کا اڈہ بنا ہوا ہے-کیوں؟؟ وجہ صاف ہے کہ دین تو آگیا مگر علم کی شمع چوں کہ ان سے کوسوں دور رہی، اس لیے وہ اکتسابِ نور سے محروم رہے-تبلیغی جماعت میں اگرچہ چھ باتوں پر زور دیا جاتا ہے، مگر حق یہ ہے کہ ان پر عمل ندارد -کلمہ، نماز، اخلاص نیت، علم وذکر، اکرامِ مسلم اور تفریغِ وقت- یہ چھ باتیں جماعت کی جان ہیں، مگر انصاف سے بتائیے کہ اکرامِ مسلم کا پہلو جماعت میں پایا جاتا ہے؟ علما کا اکرام آہستہ آہستہ مفقود ہوتا جا رہا ہے،اکرام تو جانے دیجیے، تنقیص و توہین چل رہی ہے-علم کے نام پر صرف فضائل اعمال ہے-کیا سارے علوم فضائل اعمال میں آگئے؟ ہرگز نہیں، تو پھر دیگر کتابوں کو شجرۂ ممنوعہ کیوں سمجھا جا رہا ہے؟؟............ان کے علاوہ دیگر باتیں بھی جماعتی حلقے میں پائی جاتی ہیں، مگر نقائص گنانا مقصود نہیں، مقصود فقط اصلاح ہے-مدرسے والے بھی دین کی خدمت کررہے ہیں اور تبلیغ والے بھی-بلکہ اگر میں تمثیلاً یہ کہوں تو ہرگز غلط نہ ہوگا کہ "جماعت "اچھے شہری فراہم کررہی ہے اور "مدارس "اچھی فوج اور حکمراں-اجرت لے کر کام کرنا دین کے منافی ہرگز نہیں-"نبوت "کے بعد سب سے بڑا مقام "خلافت "کا ہے، خلفاے اسلام بیت المال سے تنخواہیں پاتے تھے یا نہیں؟ تو کیا معاذااللہ یہ کہہ دیا جاے کہ خلفاے اسلام نے صرف اپنی دنیوی ضروریات کی تکمیل کی، نہ کہ اسلام کی خدمت-.............. یہ خراب ذہنیت ہے-اکابرِ جماعت سے تمام محبانِ جماعت کی مخلصانہ اپیل ہے کہ سرِعام علماے اسلام اور مدارسِ اسلامیہ کی خدمات کو سراہیں، ان کے روشن کارناموں کی عوام کے درمیان تشہیر کریں، جماعتی عوام پر دباؤ ڈالیں کہ وہ اپنا رشتہ علماےکرام و مدارس سے مستحکم کریں-مجھے امید ہے کہ جب مرکز اور جماعت کے اکابر علی الاعلان مدارس و اہلِ علم کی قدر دانی کریں گے تو عوام میں بھی اہلِ علم اور مدارس کی اہمیت جاگزیں ہوگی....... چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر ....کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی
No comments:
Post a Comment