Sunday, 26 June 2016

تبلیغی جماعت کی مقبولیت

[26/06 20:16] محمد شمیم انصاری: محترم ومکرم جناب حضرت مولانا زهیر الحسن زید مجده
السلام و علیکم ورحمة الله وبركاته
امید کہ مزاج گرامی بخیر هوں گے
پچھلے چند ماہ سے مرکز کے احوال جوسامنے آرهے هیں اس سے پوری دنیا میں بے چینی پہیلی هوئ هے اور عوام وخاص سب هی پریشان ہیں احقر نے اس سارے معاملے کی مختلف ذرائع سے تحقیق کی کہ آخر ایسا کیوں هورها هے اس کی کیا وجہ ہے اس کے لئے مرکز کا سفر بهی کیا اور کافی حضرات سے ملاقات بهی کی بالآخر اس نتیجہ پر پہونچا کہ تمام معاملات کے خرابی کی وجہ اطاعتِ امیر نہ کرنا اور امیر کی اطاعت واجب ہے جس نے امیر کی نافرمانی کی  اس نے رب کی نافرمانی کی اور امیر کی نافرمانی کی وجه جوسامنے آئ وہ آپ کا غیرشرعی مطالبہ کہ آپ کو بهی فیصل بنایا جائے اور شورائی نظام قائم کیا جائے دونوں مطالبے غیر شرعی اورغیر اخلاقی هیں
خدارا اس بات کو سمجھنے کی کوشش فرمائیں کہ دشمن کئ سالوں سے مرکز میں اور تبلیغ میں توڑ پیدا کرنا چاہ رہا ہے اس وقت اس کو آپ کی شکل میں ایک مهرہ ملا هوا هے آپ سے کهیل رها اور آپ اپنی ناتجربہ کاری کی وجه سے اس کے هاته میں کهلونہ بنے ہوئے ہیں
اپنے والد محترم اور دادا محترم رحمهما کی قربانیوں کو ضائع نہ کریں جسطرح هر جماعت کی روانگی کے وقت انکو اطاعت امیر کی هدایات دی جاتی ہیں اسے خود بهی عمل میں لے آئیں اگر خدانخواستہ اس وقت آپ نے خود کو اوراپنے محبین کو نہ سنبھالا تو یاد رکھئے آپ کی نسلوں سے دین ختم ہو جائے گا دین کا کام تو کسی خاندان یا فرد کا محتاج نہیں ہے قرآن کی آیات واحادیث اس پر شاهد هیں
ایک معاملہ بهت زور وشور سے اٹهایا جارها هے کہ مولانا سعد صاحب کو امیر کس نے بنایا یہ چیز آپ کو بهت اچهی طرح سے معلوم هے پہر بهی میں اس کو یاد دہانی کے لئے لکهدیتا هوں جب آپ کے دادا حضرت جی مولانا انعام الحسن صاحب رحمۃ اللہ اس دنیا سے رخصت ہوئے تو مرکز میں امارت کے لئے کچھ افراد آپ کے والد محترم مولانا زبیر صاحب رحمۃ اللہ کو امیر بنانے کے حق میں تهے یہ گجرات اور علیگڑھ کے احباب تهے اور میوات والے احباب حضرت مولانا سعد صاحب کو امیر بنانے کے حق میں تهے جبکہ کاندهلہ وسهارنپو کے بڑے بزرگ حضرات حضرت مولانا اظہار الحسن صاحب رحمۃ اللہ کو امیر بنانے کے حق میں تهے اس وقت جماعت کے بڑے اکابرین جس میں سرفهرست حاجی عبدالوهاب صاحب مفتی زین العابدین صاحب حضرت مولانا عمرصاحب پالنپوری حضرت مولانا سعید احمد خاں صاحب میاں جی محراب وغیرہ حضرات اس معاملہ کو حل کرنے کے لئے بیٹھے اور ان حضرات نے اس کے لئے اپنا امیر میاں جی محراب کو بنایا کہ وہ جو طے کردیں ان شاءالله اس کو سب حضرات قبول کرلینگے چنانچہ تین دن مشورے چلتے رهے اور اس کے بعد میاں جی محراب نے یہ طے فرمایا کہ تین ذمہ دار هونگے 1 حضرت مولانا اظہار الحسن صاحب
2 حضرت مولانا زبیر صاحب
3 حضرت مولانا سعد صاحب
اور یہ حضرات ایک ایک ماہ پر امارت بدلتے رهینگے بهر کیف یہ چیز طے هوگئ اور ترتیب چلتی رهی حالانکہ کہ اس پربعض اکابرین کو انشراح نهیں تها انکا کہنا یهی تها کہ امیر ایک ہی هونا چاہیے اور شریعت کا تقاضہ بهی یهی هے لیکن چونکہ ایک چیز کا فیصلہ هو چکا تھا اس لئے کسی نے کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے کسی طرح کی کوئی بدمزگی پیدا ہو الحمد للہ یہ تینوں حضرات بحسن خوبی اپنی تمام تر ذمہ داریاں پوری کرتے رہے اور کبهی کوئی اختلاف نہیں هوا
کچھ ماہ بعد حضرت مولانا اظہار الحسن صاحب انتقال فرما گئے پہر آپ کے والد محترم اور مولانا سعد صاحب کی قیادت میں یہ تبلیغی قافلہ چلتا رہا اور بڑھتا رها الله کی مرضی آپ کے والد محترم بهی اس دنیا سے رحلت فرما گئے اور اب تنها مولانا سعد صاحب رہ گئے اور امارت و قیادت کا بوجھ اب صرف انهی کے کندھوں پر هے یہ تفصیل ضمناً لکهدی تاکہ مستحضر رهے
اب آپ کا کام یہ تها کہ آپ مولانا سعد صاحب کی امارت و قیادت کو قبول کرتے اور ایک مطیع مامور بن کر کام کو سنبهالتے نہ کہ کسی سازش کا شکار هوکر اس طرح کی حرکتیں کرتے جس سے کام کو اور مرکز کو اجتماعیت کو نقصان پهونچتا
خدارا آپ سے درخواست ہے التجا ہے آپ اگر اطاعت امیر پر نهیں آسکتے تو کم از کم اتنا کریں کہ انتشار پیدا نہ کریں مرکز کے روحانی ماحول کو پراگندہ نہ کریں مار کاٹ کی سیاست سے اجتناب فرمائیں اپنی اور اپنے باب دادا کی عزت کو پامال نہ کریں خدارا هوش میں آئیں اور کام کو بدنام نہ کریں
یہ چند گزارشات تهیں الله کرے کہ نفع مند ثابت هوں
                 والسلام
          ابو حذیفہ قاسمی
[26/06 20:16] محمد شمیم انصاری: ♻♻♻♻♻♻♻
تبلیغی جماعت کی مقبولیت کو سمجھیں
ـــــــــــــــــــــــ
از قلم: آفتاب اظہر کشن گنجوی
جنرل سکریٹری: آل انڈیا مجلس صدائے حق
🔵🔵🔵🔵🔵🔵🔵
    تبلیغی جماعت کوئی فرقہ یا مسلک نہیں؛ بلکہ فرقۂ مقبول اہل السنۃ والجماعۃ کی ایک تحریک ہے، ایک ایسی تحریک جس کا وجود قوم و ملت کی دین سے دوری کے درد کو دل میں جگہ دینے والے شخص کا اخلاص ہے، ایک ایسی تحریک جس کو صرف اس لئے عمل میں لایا گیا تاکہ مسلم عوام اپنے ایمان کی سلامتی کے ساتھ دنیا سے جائے، ایک ایسی تحریک جس نے پوری امت محمدیہ کی دینی بقاء کے لئے فکر لی، جس تحریک کے تحت مسلمانوں میں بے دینی کے ماحول کو ختم کرنے کا عزم لیا گیا، جس کے ذریعہ یہ فکر عام کی گئی کہ امت کس طرح جہنم کے سخت عذاب سے بچ کر جنت میں جانے والی بن جائے.
لہذا تبلیغی جماعت کا عین مقصد اخروی کامیابی کا حصول ہے، کہ ہماری اصل زندگی یعنی آخرت سنور جائے، ہم اور ہمارے تمام مسلمان بھائی جنت  میں جانے والے بن جائیں.
یہ تحریک جہاں امر بالمعروف ونھی عن المنکر کے فریضے کو انجام دے رہی ہے وہیں دنیا کو امن و سلامتی کا پیغام بھی پہنچارہی ہے.

   آج تبلیغی جماعت ساری دنیا میں مقبولیت پاچکی ہے اور یہ مقبولیت خدا کی طرف سے ہے، اللہ جل شانہ نے اس تحریک کی بے لوث محنت اور خلوصِ فکر کو قبولیت سے نواز کر ساری دنیا میں اس کی مقبولیت کو عام کردیا ہے.
گزشتہ ہزار صدیوں میں شاید ہی کسی تحریک کو اتنی جلد اتنی بڑی کامیابی مل گئی ہو جو تبلیغی جماعت کو نصف صدی میں ہی حاصل ہوئی.

اس تحریک کی اس کامیابی کے پیچھے کئی وجوہات ہیں.
مثلاً👇👇👇
۱. اس تحریک کا تعلق مسلک اہل السنۃ والجماعۃ سے ہونا

۲. اپنی ذات کی اصلاح اور ایمان کی حفاظت کی مکمل فکر کرنا

۳  عالم اسلام کی دینی فکر کو لے کر چلنا.

۴. اپنی جان، مال اور اپنے وقت کو بلا کسی دنیوی مفاد کے صرف اللہ کے لئے اس کام میں کھپانا.

۵. فرائض و واجبات کے ساتھ ساتھ سنتِ نبوی و سنت صحابہ کی بے حد پابندی کرنا.

۶. چھ نمبر) ایمان، نماز، علم و ذکر، اکرام مسلم، اخلاص نیت اور تبلیغ( کی محنت کو ہرعام و خاص تک پہنچانا.

۷. علماء کی رہنمائی میں رہ کر کام کرنا اور ان کا حد درجہ احترام کرنا.

۸. تبلیغی سفر میں مساجد کو )مکمل آداب کے ساتھ( اپنی قیام گاہ بنانا.

۹. ہر کام آپسی مشورہ سے طے کرنا.

۰۱. اپنا ایک امیر بناکر اس کی مان کر چلنا.

یہ اہم امور ہیں جن کے سبب تبلیغی جماعت کو تقویت و قبولیت حاصل ہوئی.

آج کل تبلیغی جماعت کی مخالفت بھی کی جانے لگی ہے؛ بات صاف ہے کہ جب پیڑ پر پھل آنے لگتے ہیں تو پتھر بھی پھینکے جاتے ہیں؛ لیکن افسوس ہے ان عالمان قوم پر جو علی الاعلان اس کی مخالفت کرتے اور مخالفت میں تحریریں شائع کرتے ہیں؛ شاید وہ اس تحریک کے عالمی خوش کن نتائج سے ناواقف ہیں اور اس کی عالمی مقبولیت سے ناآشنا ہیں، ان سے عرض ہے کہ آپ اپنے ہی مسلک کی اتنی بڑی اور مقبول ترین تحریک کی مخالفت میں کیوں لگے ہوئے ہیں؟ اگر اس تحریک سے منسلک کچھ لاعلم حضرات کم علمی کی وجہ سے غلو سے کام لے رہے ہیں یا تبلیغی جماعت کے بعض افراد بے اصولی کا مظاہرہ کرتے ہیں تو اس کا مطلب یہ تو نہیں کہ ہم سرے سے اس تحریک کو ہی بدنام کرنا شروع کردیں اور اس کی کلی مخالفت میں قلم کو تلوار اور زبان کو قینچی بنادیں؟

آہ ہمارے اس مخالفتی اقدام سے جہاں دوسرے باطل فرقے ہمارے مسلک کا مذاق اڑاتے اور ہمیں آپسی انتشار کا شکار بتاتے ہیں وہیں وہ لوگ بھی بدظن ہورہتے ہیں جن کی دینی اصلاح تبلیغی جماعت کی وجہ سے ہی ہوئی ہے،
جن کو مسجد کا پتہ ہی اس تحریک کی محنت سے ملا ہے، جن کی نماز وغیرہ اسی تبلیغی جماعت میں جاکر درست ہوئی ہے.
◽◾◽◾◽◾◽
غلطیاں سدھارنے کے لئے مخالفت کا طریقہ کہاں درست ہے؟
اور گھر کا معاملہ تو گھر کے افراد ہی آپس میں مل بیٹھ کر سلجھاتے ہیں نہ کہ دنیا کو سنا کر.
خدا را اس بات کو سمجھئے کہ اللہ تعالی نے اس تبلیغی جماعت کی تحریک کے لئے ہمارے مسلک حق اہل السنۃ والجماعۃ کا انتخاب کیا اور بے انتہا قبولیت سے نوازا، یہ ہمارے لئے خوش قسمتی اور فخر کی بات ہے.
آج ہندو پاک اور بیرونی ممالک میں باطل فرقوں کے نہ پنپنے اور دب کر رہ جانے کی ایک بڑی وجہ تبلیغی جماعت کا زور اور اس کا اثر ورسوخ ہے.
باطل کے لئے ہماری یہ تحریک ایک آہنی دیوار بن چکی ہے، اس تحریک کی قدر کیجئے.
ــــــــــــــــــــــــــــآپ کا اپنا

💐💐💐💐💐💐💐💐
ـــــــــــــــــــــــــ
بنا خیانت کئے خوب شیئر کریں.

No comments:

Post a Comment